أُولَٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
یہی لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبارہ دیا جائے گا اس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھلائی ہے [٧٢] اور برائی کا جواب بھلائی سے [٧٣] دیتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [٧٤]
1۔ اُولٰٓىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ : یعنی اہل کتاب میں سے جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے انھیں دوہرا اجر ملے گا، کیونکہ یہ لوگ پہلے رسول پر ایمان لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ : رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَ آمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوْكُ إِذَا أَدّٰی حَقَّ اللّٰهِ وَ حَقَّ مَوَالِيْهِ وَ رَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيْبَهَا وَ عَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيْمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ )) [بخاري، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ و أھلہ : ۹۷ ]’’تین آدمیوں کے لیے دو اجر ہیں، ایک اہل کتاب میں سے کوئی آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور ایک وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے، جب اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے اور ایک وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی تھی، جس سے وہ جماع کرتا تھا، اسے اس نے ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا اور تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی، پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا، تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ 2۔ بِمَا صَبَرُوْا: صبر تین طرح کا ہے، طاعت پر صبر، معصیت سے صبر اور مصیبت پر صبر۔ یعنی پہلے ایک رسول علیہ السلام پر ایمان لا کر صابر اور ثابت قدم رہے، پھر دوسرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اس پر ثابت قدم رہے۔ اسی طرح خواہشاتِ نفس کے مقابلے میں ثابت قدم رہے اور ان آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے رہے جو قبول اسلام کے بعد ان پر آئیں۔ 3۔ وَ يَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ : ’’دَرَأَ يَدْرَأُ‘‘ کا معنی دفع کرنا، دور کرنا، یا پرے ہٹانا ہے۔ اس آیت کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ اگر کوئی شخص ان سے برا سلوک کرے تو اس کا جواب برائی سے نہیں بلکہ اچھے سے اچھے طریقے سے دیتے ہیں، جیساکہ فرمایا : ﴿ وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ﴾ [ حٰم السجدۃ : ۳۴ ] ’’ اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ رعد (۲۲) اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہو جائے تو بعد میں نیک اعمال کر کے اس کا اثر ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ [ ھود : ۱۱۴ ]’’اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔‘‘ 4۔ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ: برائی کا جواب اچھائی سے دینا، یا نیکی کے ساتھ برائی کو مٹانا بعض اوقات ممکن ہی نہیں ہوتا جب تک خرچ نہ کیا جائے، اس لیے ان کی یہ صفت بیان فرمائی کہ ہم نے انھیں جو کچھ دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اس میں حقوقِ واجبہ و مستحبہ، فرض زکاۃ اور نفلی صدقات سبھی آ گئے۔ ’’رَزَقْنٰهُمْ‘‘ میں اپنے احسان کا احساس بھی دلایا ہے اور یہ بھی کہ اگر وہ خرچ کرتے ہیں تو اپنا کچھ خرچ نہیں کرتے، بلکہ اللہ کا دیا ہوا ہی خرچ کرتے ہیں، لہٰذا انھیں خرچ کرنے میں دریغ نہیں ہونا چاہیے۔