وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور ہم انھیں لگاتار (نصیحت کی) باتیں پہنچاتے رہے ہیں۔[٦٩] تاکہ وہ نصیحت کو قبول کریں۔
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ ....: ’’ وَصَّلَ الْقَوْلَ تَوْصِيْلاً ‘‘ بات کے ساتھ بات ملانا، پے در پے بات پہنچانا۔ قرآن اور تورات کو جادو قرار دے کر دونوں کے انکار کے اعلان کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے مطابق اللہ کی طرف سے ان کے پاس کوئی ہدایت آئی ہی نہیں اور بلاغت کا قاعدہ ہے کہ انکار جتنا شدید ہو اتنی ہی تاکید کے ساتھ بات کی جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ’’لام‘‘ اور ’’قَدْ‘‘ کی دوہری تاکید کے ساتھ، جو قسم کا مفہوم رکھتی ہے، فرمایا : ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انھیں پے در پے بات پہنچائی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں، ایک یہ کہ ہم ایک رسول کے بعد دوسرا رسول اور ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے، ان سب کی تعلیمات ان تک بھی پہنچتی رہیں، تاکہ یہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید ایک ہی دفعہ نازل کر دینے کے بجائے ہم انھیں اس کی آیات یکے بعد دیگرے پے در پے پہنچا رہے ہیں، کبھی وعدہ و وعید کی صورت میں، کبھی وعظ و نصیحت کی صورت میں، کبھی قصوں اور عبرتوں کے بیان کی صورت میں اور کبھی امر و نہی کی صورت میں کہ کسی طور پر نصیحت حاصل کریں۔