وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ
اور جب ہم نے موسیٰ کے امر (رسالت) کا فیصلہ کیا تھا تو آپ (طور کی) غربی جانب [٥٧] موجود نہ تھے۔ اور نہ ہی (اس واقعہ کے) گواہ [٥٨] تھے۔
1۔ وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ ....: ’’ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ ‘‘ میں ’’جَانِبٌ‘‘ موصوف ہے جو اپنی صفت کی طرف مضاف ہے اور یہ کلام عرب میں عام ہے، جیسے ’’مَسْجِدُ الْجَامِعِ، دِيْنُ الْقَيِّمِ، حَقُّ الْيَقِيْنِ‘‘ اور ’’دَارُ الْآخِرَةِ۔‘‘ بعض نحوی حضرات جو موصوف کو صفت کی طرف مضاف کرنا جائز نہیں سمجھتے، وہ ان سب مقامات میں کوئی نہ کوئی لفظ محذوف مانتے ہیں، مثلاً ’’ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ ‘‘ کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ یہ اصل میں ’’بِجَانِبِ الْمَكَانِ الْغَرْبِيِّ‘‘ ہے۔ مگر اس تکلف کی ضرورت نہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغربی جانب سے کس مقام کی مغربی جانب مراد ہے؟ کیونکہ ہر جگہ ہی کسی نہ کسی لحاظ سے مغربی ہوتی ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ عرب کے ہاں سمتوں کے تعین کے لیے بیت اللہ کو اصل قرار دیا گیا ہے۔ بیت اللہ کو سامنے رکھ کر مشرق کی طرف منہ کریں تو دائیں طرف کے علاقے کو یمن (دایاں) کہتے ہیں، بائیں طرف کو شام (بایاں) اور سامنے کے علاقے کو جانب شرقی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف منہ کر کے فرمایا: (( أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هٰهُنَا مِنْ حيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ )) [ مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب الفتنۃ من المشرق....: ۲۹۰۵۔ بخاري : ۳۵۱۱ ] ’’آگاہ ہو جاؤ! اس (یعنی مشرق کی ) طرف سے فساد پھوٹے گا، جدھر سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔‘‘ اور بیت اللہ سے مغرب کی جانب والے علاقوں کو ’’جانب غربی‘‘ کہا جاتا ہے۔ امرء القیس نے ایک بادل کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے کہا ہے : عَلٰي قَطَنٍ بِالشَّيْمِ أَيْمَنُ صَوْبِهِ وَ أَيْسَرُهُ عَلَي السِّتَارِ فَيَذْبُلِ ’’غور سے دیکھنے پر اس کی بارش کا دایاں حصہ قطن مقام پر تھا اور اس کا بایاں حصہ ستار پھر یذبل نامی مقام پر تھا۔‘‘یہاں دائیں اور بائیں جانب سے مراد مشرق کی طرف منہ کرنے کے بعد دائیں اور بائیں جانب مراد ہے۔ واضح رہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو جب طور سے ندا آئی تو اس وقت وہ طور سے اس جانب میں تھے جو کعبہ کی طرف رخ کرنے سے اس کی غربی جانب بنتی ہے اور اس وقت وہ جس وادی میں تھے وہ موسیٰ علیہ السلام کے کعبہ کی طرف رخ کرنے کی صورت میں پہاڑ کی دائیں طرف تھی، جسے اللہ تعالیٰ نے ’’ الْوَادِ الْاَيْمَنِ ‘‘ اور ’’ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ‘‘ فرمایا ہے۔ 2۔ ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کے حق ہونے کی دلیل بیان فرمائی ہے کہ جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی اور انھیں نبوت عطا فرمائی، اس وقت اے محمد! نہ تو طور کی غربی جانب میں موجود تھا، نہ یہ منظر دیکھنے والوں میں سے تھا اور نہ تو اس سے پہلے پڑھنا لکھنا جانتا تھا (دیکھیے عنکبوت : ۴۸) بلکہ یہ غیب کی وہ باتیں ہیں جو ہم نے تجھے وحی کے ذریعے سے بتلائی ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ تو اللہ کا سچا رسول ہے، کیونکہ تو نے نہ خود ان باتوں کا مشاہدہ کیا، نہ یہ کسی سے سیکھیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے، سورۂ آل عمران میں ہے : ﴿ ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ وَ مَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ ﴾ [ آل عمران : ۴۴ ] ’’یہ غیب کی کچھ خبریں ہیں، ہم اسے تیری طرف وحی کرتے ہیں اور تو اس وقت ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے قلم پھینک رہے تھے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ ہود (۴۹ اور ۱۰۰)، یوسف (۱۰۲) اور طٰہٰ(۹۹)۔