وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ
نیز ہم نے انھیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے سرغنے بنا دیا [٥٣] اور قیامت کے دن انھیں کہیں سے مدد نہ [٥٤] مل سکے گی۔
1۔ وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ: ’’ اَىِٕمَّةً ‘‘ ’’إِمَامٌ‘‘ کی جمع ہے، جس کی پیروی کی جائے، جیسا کہ نماز میں مقتدی امام کی پیروی کرتا ہے۔ امامت نیکی میں بھی ہوتی ہے اور برائی میں بھی، جیسا کہ ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا ﴾ [ الأنبیاء : ۷۳ ] ’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے۔‘‘ برائی میں امامت کی مثال فرعون اور اس کے لشکر تھے۔ فرمایا، ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے، یعنی جب تک زندہ رہے کفر میں لوگوں کے پیشوا رہے اور اپنے قول و فعل سے انھیں کفر کی دعوت دیتے رہے، جس کا نتیجہ آگ ہے۔ اسی طرح یہ قیامت کے دن بھی امام اور پیشوا ہوں گے، مگر آگ کی طرف، فرمایا : ﴿ يَقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَ بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ ﴾ [ ھود : ۹۸ ] ’’وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا، پس انھیں پینے کے لیے آگ پر لے آئے گا اور وہ پینے کی بری جگہ ہے، جس پر پینے کے لیے آیا جائے۔‘‘ 2۔ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ لَا يُنْصَرُوْنَ: یعنی یہاں کے لشکر وہاں کام نہ دیں گے، نہ کسی طرف سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔