وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ
پر جب انہوں نے [٣١] مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے میرا پروردگار مجھے ٹھیک راستے میں ڈال دے گا
1۔ وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْيَنَ ....: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور انھیں اس راستے پر ڈال دیا جو مدین کی طرف جاتا تھا۔ مدین خلیج عقبہ کے مغربی ساحل پر ’’مقنا‘‘ سے چند میل بجانب شمال واقع تھا، آج کل اسے ’’اَلْبِدَعْ‘‘ کہتے ہیں۔ اس زمانے میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔ مصر کی حکومت پورے جزیرہ نمائے سینا پر نہیں تھی، بلکہ صرف اس کے مغربی اور جنوبی علاقے تک محدود تھی۔ خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی ساحل، جن پر بنی مدیان آباد تھے، وہ مصری اقتدار سے آزاد تھے، اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے نکلتے ہی مدین کا رخ کیا، کیونکہ قریب ترین آزاد اور آباد علاقہ وہی تھا، لیکن وہاں جانے کے لیے انھیں گزرنا بہرحال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا اور مصر کی فوج سے بچ کر نکلنا تھا، اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے سیدھے راستے پر ڈال دے، جس سے میں صحیح سلامت مدین پہنچ جاؤں۔ (تفہیم القرآن) 2۔ ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ذکر کیا ہے کہ ’’موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین کی طرف چلے تو ان کے پاس راستے میں سبزی اور درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہ تھی، حتیٰ کہ پاؤں سے ننگے ہو گئے۔ مدین پہنچنے سے پہلے ہی ان کے پاؤں کے جوتے ٹوٹ کر گر گئے۔ جب سائے میں جا کر بیٹھے تو اس وقت وہ ساری مخلوق میں اللہ کے چنے ہوئے بندے تھے اور حال یہ تھا کہ بھوک سے پیٹ پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔‘‘