قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِّلْمُجْرِمِينَ
پھر یہ عہد کیا کہ : پروردگار! تو نے جو مجھ پر [٢٧] انعام کیا ہے تو میں کبھی مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا
قَالَ رَبِّ بِمَا اَنْعَمْتَ عَلَيَّ ....: ’’ بِمَا ‘‘ میں باء سببیت کے لیے ہے، یعنی اے میرے رب! تو نے جو مجھ پر انعام کیا کہ مجھے ہر قسم کی نعمت سے نوازا اور میرے فعل پر پردہ ڈال دیا، اس وجہ سے میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔ ممکن ہے موسیٰ علیہ السلام کی مراد مجرم سے وہ اسرائیلی ہو جس کی انھوں نے مدد کی تھی، کیونکہ وہ جرم کا سبب بنا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ’’مجرمین‘‘ سے فرعون اور اس کی قوم کے لوگ مراد لیے ہوں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مجرم تھے اور ان کے اللہ تعالیٰ کے حضور عہد کرنے کا مطلب یہ ہو کہ تو نے جو مجھے نعمت و عزت اور راحت و قوت عطا فرمائی ہے اس کا شکر یہ ہے کہ اسے ان مجرموں کی حمایت و اِعانت میں صرف نہ کروں، بلکہ ان سے اپنا تعلق منقطع کر لوں اور اس ظالم حکومت کا کل پُرزہ نہ بنوں۔ ابن جریر اور بہت سے دوسرے مفسرین نے موسیٰ علیہ السلام کے اس عہد کا یہی مطلب لیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس کے مطابق تفسیر فرمائی ہے۔ اس آیت سے ظالم حکمرانوں کا ساتھ دینے اور ان کا تعاون کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔