فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ۗ إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ
چنانچہ فرعون کے گھر والوں نے اس بچے کو اٹھا لیا کہ وہ ان کے لئے دشمن اور رنج [١٢] کا باعث بنے بلاشبہ فرعون، ہامان اور [١٣] ان کے لشکر خطا کار لوگ تھے
1۔ فَالْتَقَطَهٗ اٰلُ فِرْعَوْنَ: ’’ اِلْتَقَطَ‘‘ کا معنی ہے کسی کی گری ہوئی چیز اٹھا لینا۔ اُمّ موسیٰ کا گھر دریائے نیل کے کنارے پر فرعون کے محل کے بالائی جانب تھا۔ انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ایک صندوق میں بند کر کے اسے پانی سے محفوظ بنا کر دریا میں ڈال دیا، جو بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس سے گزرا، اس کے لوگوں نے اسے دیکھا تو دریا سے نکال کر فرعون کے پاس لے آئے۔ 2۔ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا: اس ’’لام‘‘ کو اکثر مفسرین ’’لام عاقبت‘‘ کہتے ہیں، یعنی آل فرعون کے اسے اٹھانے کا نتیجہ یہ ہونا تھا کہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے غم کا باعث بنے۔ مگر اسے لام تعلیل بھی بنا سکتے ہیں، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر تھی کہ آل فرعون نے اسے اٹھا لیا، تاکہ وہ ان کے لیے دشمن اور باعث غم بنے۔ 3۔ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ ....: ’’ خٰطِـِٕيْنَ ‘‘ ’’أَخْطَأَ يُخْطِئُ‘‘ (افعال) کا معنی ہے بھول کر خطا کرنا اور ’’خَطِئَ يَخْطَأُ ‘‘ (ع) کا معنی ہے جان بوجھ کر گناہ کرنا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ﴾ [ العلق : ۱۶ ] ’’پیشانی کے ان بالوں کے ساتھ جو جھوٹے ہیں، خطا کار ہیں۔‘‘ اس کا مصدر ’’خِطْأٌ‘‘ (خاء کے کسرے کے ساتھ) ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۳۱ ]’’بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ اور سورۂ یوسف میں ہے : ﴿ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِـِٕيْنَ ﴾ [یوسف:۲۹] ’’یقیناً تو ہی خطا کاروں سے تھی۔‘‘ ’’اِنَّ‘‘ کے ساتھ عموماً پہلی بات کی علت بیان کی جاتی ہے، یعنی موسیٰ علیہ السلام ان کے لیے دشمن اور باعث غم کیوں بننے والے تھے؟ اس لیے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطاکار تھے، جنھوں نے ہزاروں بچوں کو ذبح کر دیا اور بنی اسرائیل پر بے پناہ ظلم کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھی کے پروردہ کو ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دیا۔ بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ ’’چوکنے والے‘‘ کیا ہے، مگر ’’خَاطِئٌ‘‘ کا لغوی معنی اس ترجمے کا ساتھ نہیں دیتا۔