قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ : اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو'' پھر اگر وہ یہ دعوت قبول نہ کریں تو اللہ ایسے کافروں [٣٤] کو پسند نہیں کرتا
1۔ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ:پچھلی آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا حکم تھا جس کا معنی آپ کے نقش قدم پر چلنا، آپ کی پیروی کرنا ہے، اگرچہ اتباع میں حکم ماننا بھی آ جاتا ہے مگر اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا خاص طور پر الگ ذکر فرمایا، جس کا معنی حکم ماننا ہے۔ آگے فرمایا کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں رکھتا۔ یہاں بات صاف سمجھ میں آ رہی ہے کہ بات مختصر کر دی گئی ہے، جو اس طرح تھی کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو وہ کافر ہیں اور اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ ”الْكٰفِرِيْنَ“ میں الف لام عہد کا ہونے کی وجہ سے ترجمہ ’’ایسے کافروں‘‘ کیا گیا ہے۔ 2۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ”الرَّسُوْلَ“ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مستقل حیثیت سے حکم دیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ”الرَّسُوْلَ“ کی اطاعت سنت کی پیروی ہی سے ہو سکتی ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں کہ حدیث وہی حجت ہو گی جو قرآن کے مطابق ہو، حالانکہ قرآن نے متعدد مواقع پر حدیث کو مستقل دلیل اور شریعت کے ماخذ کی حیثیت دی ہے، لہٰذا قانون کا ماخذ قرآن و حدیث دونوں قرار پائیں گے۔ حدیث میں قرآن سے زائد حکم تو ہو سکتے ہیں مگر کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے، اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے تو یہ اس کی عقل و فہم کا قصور ہے، یا اس کی نیت کا فتور۔ مزید دیکھیے سورۂ نجم (۴)۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے ہو اور اس کے پاس میرے حکم میں سے کوئی حکم آئے، ان چیزوں میں سے جن کا میں نے حکم دیا ہے، یا میں نے منع کیا تو وہ کہے، ہم نہیں جانتے، ہم اللہ کی کتاب میں جو پائیں گے اسی کی پیروی کریں گے۔‘‘ [أبو داؤد، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ:۴۶۰۵، عن أبی الدرداء رضی اللّٰہ عنہ ]