سورة النمل - آیت 84

حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُم بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّاذَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہاں تک کہ جب وہ سب آجائیں گے تو اللہ ان سے پوچھے گا کہ : تم نے میری آیات کو جھٹلایا حالانکہ علمی لحاظ سے تم نے ان کا احاطہ [٨٨] نہیں کیا تھا ؟ (اگر یہ بات نہیں تو) پھر تم کیا [٨٩] کرتے رہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

حَتّٰى اِذَا جَآءُوْ ....: یعنی ان کے حاضر ہونے پر ان سے عقائد و اعمال دونوں کے متعلق سوال ہو گا اور یہ سوال انھیں شرمندہ اور لاجواب کرنے کے لیے ہو گا کہ کیا دنیا میں تمھارا یہی مشغلہ رہا کہ تم ہماری آیات کو پوری طرح جاننے اور سمجھنے کے بغیر ہی جھٹلاتے رہے۔ تمھارے جھٹلانے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ تم نے پوری طرح جاننے اور سمجھنے کے بعد انھیں غلط سمجھ کر جھٹلایا ہو، یا پھر بتاؤ تم کیا کرتے رہے تھے، جیسا کہ سورۂ ملک میں کفار کا قول نقل کیا ہے، فرمایا : ﴿ وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ (10) فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ ﴾ [الملک:۱۰، ۱۱] ’’اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔ پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے، سو دوری ہے بھڑکتی ہوئی آگ والوں کے لیے۔‘‘ ہمارے زمانے کے بدعتی، فرقہ پرست، منکرین حدیث اور کفار سے مرعوب جدّت کے دعوے دار لوگوں کا بھی یہی حال ہے کہ جہاں کوئی آیت یا حدیث سمجھ میں نہ آئی اس پر پوری طرح غور کرنے یا کسی سے سمجھنے کے بغیر ہی اسے ردّ کر دیا، یا کوئی آیت یا حدیث اپنے فرقے کے مسلک کے خلاف نظر آئی تو اسے ردّ کر دیا، یا اس کی ایسی تاویل کی جو ردّ کر دینے سے بھی بدتر ہے۔