وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
اور لوط (کا واقعہ یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا : کیا تم سمجھ رکھنے [٥٣] کے باوجود بدکاری کے کام کرتے ہو؟
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ ....: لوط علیہ السلام کے قصے کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۸۰ تا ۸۴)، ہود (۷۷ تا ۸۳)، حجر (۶۱ تا ۷۷)، انبیاء (۷۱ تا ۷۵)، شعراء (۱۶۰ تا ۱۷۵)، عنکبوت (۲۸ تا ۳۵)، صافات (۱۳۳ تا ۱۳۸) اور قمر (۳۳ تا ۳۹)۔ صالح علیہ السلام کے واقعہ کے بعد، جو قرابت رکھنے والوں کی طرف مبعوث تھے اور جن کی قوم مومن و کافر دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی تھی، اس پیغمبر کا ذکر کیا جو اپنی قوم میں اجنبی تھا اور جس پر اہل سدوم میں سے ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا، یہ پیغمبر لوط علیہ السلام تھے۔ ’’الْفَاحِشَةَ ‘‘ وہ کام جو برائی میں انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ ’’ تُبْصِرُوْنَ ‘‘ یہ بصیرت سے بھی ہو سکتا ہے اور بصارت سے بھی۔ بصیرت سے ہو تو مطلب یہ کہ تم یہ انتہائی بے حیائی کا کام کرتے ہو جب کہ خود بھی سمجھتے ہو کہ یہ گندا اور خلاف فطرت فعل ہے، جو تم سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا اور حقیر سے حقیر جانور بھی ایسا کام نہیں کرتے اور بصارت سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ تم اس قدر بے حیا ہو چکے ہو کہ ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ تَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ﴾ [ العنکبوت : ۲۹ ] ’’اور تم اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو۔‘‘