فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
سو یہ ہیں ان کے خالی پڑے ہوئے گھر، اس ظلم کی پاداش میں جو وہ کیا کرتے تھے۔ اس واقعہ میں بھی ایک نشان عبرت ہے ان لوگوں کے لئے جو علم [٥٢] رکھتے ہیں۔
1۔ فَتِلْكَ بُيُوْتُهُمْ خَاوِيَةًۢ:’’ خَاوِيَةًۢ ‘‘ کا معنی گرنے والے بھی ہیں، جیسا کہ سورۂ بقرہ (۲۵۹) میں ہے : ﴿وَ هِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا﴾ اور خالی بھی ہے، جیسے : ’’أَرْضٌ خَاوِيَةٌ أَيْ خَالِيَةٌ۔‘‘ (قاموس) مکہ والے شام کو جاتے تو راستے میں وادی القریٰ میں ثمود کی بستیوں کے کھنڈر دیکھتے تھے، عالی شان عمارتیں پیوند زمین تھیں، آبادی کا نام و نشان نہ تھا۔ 2۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ....: یعنی جاہلوں کے لیے ان اجڑے ہوئے مکانوں اور کھنڈروں میں کوئی عبرت نہیں، ان کے خیال میں اس زلزلے کا صالح علیہ السلام اور ان کی اونٹنی سے، یا اس قوم کے کفر و شرک یا سرکشی سے کوئی تعلق نہیں، دنیا میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ (دیکھیے اعراف : ۹۴، ۹۵) یہ علم والے ہی ہیں جو جانتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ایک کمال حکمت و قدرت والے پروردگار کے حکم کے تحت ہو رہا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے بے راہ روی اور ظلم و ستم کی سزا دنیا میں بھی دے دیتا ہے، اس لیے وہ جب ایسی بستیوں پر گزرتے ہیں جو عذابِ الٰہی سے برباد ہوئیں تو ان سے عبرت حاصل کرتے اور اللہ کی گرفت سے ڈر کر توبہ و استغفار کرتے ہیں۔