قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ
انہوں نے کہا : ’’سب آپس میں اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم رات کو صالح اور اس کے گھر والوں پر شب خون [٥٠] ماریں گے۔ پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم تو اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہ تھے۔ اور یقیناً ہم سچے ہیں۔‘‘
1۔ قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَنُبَيِّتَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗ ....: ’’ لَنُبَيِّتَنَّهٗ‘‘ ’’ بَيَّتَ يُبَيِّتُ تَبْيِيْتًا ‘‘ شب خون مارنا، رات کو اچانک حملہ کرنا۔ جب ان لوگوں نے باہمی مشورے سے اونٹنی کو ہلاک کر دیا اور صالح علیہ السلام نے انھیں تین دن بعد عذاب آنے سے خبردار کر دیا تو ا س کے بعد بھی ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ عذاب تو آتا ہے یا نہیں، اس سے پہلے کیوں نہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں کا قصہ تمام کر دیں۔ چنانچہ ان نو بدمعاشوں نے صالح علیہ السلام کے قتل کا ویسا ہی منصوبہ بنایا جیسا قریش مکہ نے ہجرت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا بنایا تھا۔ البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ قریش نے سوچا تھا کہ بدلے کی صورت میں قتل کرنے پر ہم سے دیت کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ ہم سب مل کر اکٹھی کرکے دے دیں گے۔ لیکن یہ بدمعاش ان سے بھی چار ہاتھ آگے کی بات سوچ رہے تھے، انھوں نے طے کیا کہ جب صالح( علیہ السلام ) کے ولی (جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولی بنو ہاشم تھے) ہم سے کوئی بات پوچھیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم تو موقع پر موجود ہی نہ تھے، ہمیں کیا خبر انھیں کون قتل کر گیا ہے؟ دوسرا فرق یہ تھا کہ قریشِ مکہ نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا، جب کہ ان بدمعاشوں نے صالح علیہ السلام اور ان کے پورے خاندان کو مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا اور اپنے اس منصوبے کے معاہدے پر سب نے ایک دوسرے کے سامنے قسمیں کھائیں کہ ایک تو اس کو اور اس کے خاندان کو قتل کرکے دم لیں گے، دوسرے اپنے جرم کا کبھی اعتراف نہیں کریں گے۔ (کیلانی) 2۔ مفسر شنقیطی نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کو ان کے اولیاء کے ذریعے سے بہت نفع پہنچایا، کیونکہ ظاہر ہے کہ ان نو(۹) بدمعاشوں نے شب خون مار کر صالح علیہ السلام اور ان کے خاندان کو قتل کرنے اور اس کا اعتراف نہ کرنے کا منصوبہ اسی لیے بنایا کہ وہ ان کے اولیاء کے خوف سے علانیہ قتل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے اور قتل کرنے کی صورت میں بھی انھیں ان کے اولیاء کا خوف تھا۔‘‘ جیسا کہ قریش ابوطالب اور بنو ہاشم کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر علانیہ ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔