قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۖ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
(صالح نے) کہا : ’’میری قوم کے لوگو! تم بھلائی سے پیشتر برائی کو کیوں جلدی طلب کرتے ہو؟ تم اللہ سے بخشش کیوں [٤٦] نہیں طلب کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
1۔ قَالَ يٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ....: ’’ اَلسَّيِّئَةُ ‘‘ سے مراد عذاب ہے اور ’’ الْحَسَنَةِ ‘‘ سے مراد رحمت ہے۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو ڈرنے کے بجائے انھوں نے اسے مذاق بنا لیا اور اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ صالح علیہ السلام نے نہایت نرمی اور محبت سے ’’اے میری قوم!‘‘ کہہ کر انھیں نصیحت کی کہ بجائے اس کے کہ تم اللہ سے خیر و رحمت کے طلب گار بنو، الٹا اس سے عذاب مانگنے میں کیوں جلدی مچاتے ہو؟ اہل مکہ کے لیے اس واقعہ میں سبق تھا، کیونکہ وہ بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَوْ لَا اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُ وَ لَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ﴾ [ العنکبوت : ۵۳ ] ’’اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آ جاتا اور یقیناً وہ ان پر ضرور اچانک آئے گا اوروہ شعور نہ رکھتے ہوں گے۔‘‘ حتیٰ کہ وہ یہاں تک کہہ گزرے : ﴿ اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ [ الأنفال : ۳۲ ] ’’اے اللہ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔‘‘ 2۔ لَوْ لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ۠ اللّٰهَ ....: یعنی عذاب میں تاخیر سے حاصل ہونے والی مہلت سے فائدہ اٹھا کر تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش کیوں نہیں مانگتے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے، کیونکہ عذاب آ جانے پر توبہ و استغفار کا کوئی فائدہ نہیں۔