وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ : اللہ کی عبادت کرو۔ تو اسی وقت وہ دو فریق [٤٥] (مومن اور کافر) بن کر جھگڑنے لگے۔
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ....: اس کا عطف ’’ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاؤدَ وَ سُلَيْمٰنَ عِلْمًا ‘‘ پر ہے اور یہ موسیٰ اور داؤد و سلیمان علیھم السلام کے قصوں کے بعد تیسرا قصہ ہے۔ اس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۷۳ تا ۷۹)، ہود (۶۱ تا ۶۸)، شعراء (۱۴۱ تا ۱۵۹)، قمر (۲۳ تا ۳۲ ) اور شمس (۱۱ تا ۱۵) ملکہ سبا اور اس کی قوم عزت و سلطنت کے باوجود سلیمان علیہ السلام کی دعوت پر اسلام لے آئی۔ اب صالح علیہ السلام کی قوم کا ذکر ہوتا ہے جو صالح علیہ السلام کی بعثت پر دو گرہوں میں بٹ گئی۔ ایک مومن و مسلم جو عموماً ’’مستضعفين ‘‘ (کمزور) تھے، دوسرا کافر و منکر جو ’’مستكبرين‘‘ (متکبر لوگ) تھے۔ دو گروہ بنتے ہی ان کے درمیان سخت جھگڑا شروع ہو گیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ قَالُوْا اِنَّا بِمَا اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ (75) قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا اِنَّا بِالَّذِيْ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ﴾ [الأعراف:۷۵، ۷۶] ’’اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، ان لوگوں سے کہا جو کمزور گنے جاتے تھے، ان میں سے انھیں (کہا) جو ایمان لے آئے تھے، کیا تم جانتے ہو کہ واقعی صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہے؟ انھوں نے کہا بے شک ہم جو کچھ دے کر اسے بھیجا گیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہیں۔ وہ لوگ جو بڑے بنے ہوئے تھے، انھوں نے کہا بے شک ہم جس پر تم ایمان لائے ہو، اس کے منکر ہیں۔‘‘ یہی صورت حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ مکہ میں بھی پیدا ہوئی کہ قوم دو گروہوں میں بٹ گئی اور یہ جھگڑا اس وقت تک جاری رہا جب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے جزیرۂ عرب پورے کا پورا اسلام کے زیر نگیں نہیں آ گیا اور کفار یا تو ذلیل و خوار ہو کر مردار ہوئے یا اسلام کے سایۂ رحمت میں آگئے۔ یہ قصہ ان حالات کے عین مطابق تھا جن میں یہ آیات نازل ہوئیں۔