قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ
(یہ خط سنا کر) ملکہ کہنے لگی : ’’اے اہل دربار! میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو۔ جب تک تم لوگ میرے پاس موجود نہ ہو میں کسی معاملہ کو طے نہیں کیا کرتی۔‘‘
1۔ قَالَتْ يٰاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْ اَمْرِيْ ....: اس سے پہلے ملکہ سبا کی بات چل رہی ہے، ’’ يٰاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ ....‘‘ بھی اسی کا کلام ہے۔ بظاہر درمیان میں ’’ قَالَتْ ‘‘ لانے کی ضرورت نہ تھی۔ بقاعی فرماتے ہیں : ’’کلام کے درمیان وقفہ ہے کہ ملکہ سبا سلیمان علیہ السلام کا خط سنا کر منتظر تھی کہ قوم کے سردار اس پر اپنا رد عمل ظاہر کریں گے، مگر جب وہ خط سن کر خاموش اور مبہوت رہ گئے، تو اس نے کہا : ’’اے سردارو! میرے اس معاملے میں مجھے حل بتاؤ۔‘‘ 2۔ اس سے ملکہ کی دانش مندی اور سمجھ داری ظاہر ہے کہ وہ ہر کام اپنے سرداروں کے مشورے سے کرتی تھی اور یہ بھی کہ سبا کا نظام بادشاہی ہونے کے باوجود استبدادی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ طرز حکومت کوئی بھی ہو، بادشاہت ہو یا خلافت، یا جمہوریت، مشورے کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بعض لوگ بادشاہت کو مطلق العنانی اور جمہوریت کو مشورہ قرار دیتے ہیں، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ ایک بادشاہ ہر کام مشورے سے کرنے والا ہو سکتا ہے، عادل بادشاہ ایسے ہی ہوتے ہیں اور ایک جمہوری سربراہ بدترین مطلق العنان آمر ہو سکتا ہے، جو پارلیمنٹ کے ارکان کو ان کی خواہشوں اور کمزوریوں کی وجہ سے داغ دار بنا کر اپنی مرضی کے تابع رکھنے پر مجبور رکھنے والا ہو۔ اس وقت تقریباً دنیا کے تمام جمہوری سربراہوں کا یہی حال ہے، بلکہ جمہوریت جس میں عوام کے لفظ کی گردان ذکر الٰہی کی طرح کی جاتی ہے، صرف عوام کو ایک دفعہ رائے کا حق دیتی ہے، پھر وہ چار پانچ سال تک بے بسی سے اپنے چنے ہوئے نمائندوں کی مطلق العنانی کے زخم کھاتے رہتے ہیں۔ اسلام میں مطلق العنان بادشاہت یا جمہوریت دونوں کا وجود نہیں۔ یہاں خلیفہ ہو یا بادشاہ، اللہ تعالیٰ کے احکام کو، جو قرآن و حدیث میں ہیں، کوئی چاہے یا نہ چاہے، ہر حال میں نافذ کرنے کا پابند ہے۔ اس کے بعد دوسرے معاملات میں وہ مشورہ کرنے کا پابند ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ﴾ [ الشورٰی : ۳۸ ] ’’اور ان کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ﴾ [ آل عمران : ۱۵۹ ] ’’اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘ مگر اس کے لیے نہ ہر ایک سے مشورہ ضروری ہے نہ وہ اکثریت کی رائے کا پابند ہے، بلکہ وہ ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لے گا جو اس کے اہل ہیں اور چونکہ فیصلے کے نفع نقصان کا ذمہ دار وہ ہے، اس لیے آخری فیصلہ اسی کا ہو گا، جو بعض اوقات اقلیت کی رائے کے مطابق بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے فرمایا : (( لَوْ أَنَّكُمَا تَتَّفِقَانِ عَلٰي أَمْرٍ وَاحِدٍ مَا عَصَيْتُكُمَا فِيْ مَشْوَرَةٍ أَبَدًا )) [ فتح الباري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول اللّٰہ تعالٰی: ﴿و أمرھم شورٰی .....﴾:13؍341] ’’اگر تم کسی بات پر متفق ہو جاؤ تو میں اس معاملے میں کبھی تمھاری مخالفت نہیں کروں گا۔‘‘ مشورے کی ایک مثال ملکہ سبا کے سرداروں کی مجلس ہے کہ انھوں نے مشورہ دے کر کہا : ﴿ وَ الْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَا ذَا تَاْمُرِيْنَ ﴾ [ النمل : ۳۳]’’اور معاملہ تیرے سپرد ہے، سو دیکھ تو کیا حکم دیتی ہے۔‘‘