لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
(ایسی ہی بات ہوئی) تو میں اسے سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے سامنے کوئی معقول وجہ [٢٣] پیش کرے۔
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا ....: ہُد ہُد کا بلااجازت غائب ہونا صریح نافرمانی تھا، اس لیے سلیمان علیہ السلام نے واضح عذر پیش نہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دو سزائیں سنائیں، ایک ذبح کر دینا اور دوسری ذبح سے کمتر کوئی سخت سزا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سلطان کی بلاعذر نافرمانی پر تعزیر ہونی چاہیے، اگر کوئی مجاہد بلااجازت غائب ہوتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ آیا یہ اس کا معمول ہے یا اتفاق سے ایسا ہوا ہے، پھر معمول ہونے کی صورت میں اس کی غیر حاضری اگر لشکر پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے طرزِ عمل سے امیر کے احکام کی قدر و قیمت باقی نہ رہنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا جرم بہت بڑا بن جاتا ہے۔ اسی طرح اس موقع کو بھی دیکھا جاتا ہے جس سے وہ غائب ہوا ہے، اگر اس کی ذمہ داری ایسی ہے کہ اس کے غائب ہونے یا سو جانے سے پورے لشکر کی تباہی کا خطرہ ہے تو ایسی کوتاہی معاف کرنے کا مطلب اپنے لشکر کو آپ ہی برباد کر دینا ہے۔ اس کے باوجود سلیمان علیہ السلام کا کمال انصاف اور تحمل دیکھیے کہ واضح دلیل پیش کرنے کی صورت میں اس سزا سے مستثنیٰ قرار دیا۔