وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ
اور سلیمان کے لیے (کسی مہم کے سلسلہ میں) اس کے جنوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور ان کی جماعت [١٨] بندی کردی گئی تھی۔
1۔ وَ حُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ....: ’’ يُوْزَعُوْنَ ‘‘ اگر ’’ وَزَعَ يَزَعُ‘‘ بروزن ’’ وَضَعَ يَضَعُ‘‘ سے ہو تو اس کا معنی روکنا ہے اور اگر ’’ أَوْزَعَ يُوْزِعُ‘‘ (افعال) سے ہو تو اس کا معنی تقسیم کرنا ہے۔ (قاموس) اس میں سلیمان علیہ السلام کی اس خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے جس میں وہ پوری انسانی تاریخ میں منفرد ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں ہی پر نہ تھی، بلکہ جنّات، حیوانات اور پرندے حتیٰ کہ ہوا تک ان کے تابع فرمان تھی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام کے تمام لشکروں یعنی انسانوں، جنّوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ اہتمام جہاد فی سبیل اللہ ہی کے لیے کیا جاتا تھا، تاکہ ساری دنیا میں اللہ کا دین غالب اور اس کا بول بالا ہو جائے۔ اس کی دلیل آگے آ رہی ہے کہ کس طرح ملکہ سبا اور اس کی قوم کے شرک کا علم ہونے پر سلیمان علیہ السلام نے اسے تابع فرمان ہو کر حاضر ہونے کا حکم دیا اور حکم عدولی کی صورت میں اسے اپنے لشکروں کی دھمکی دی، فرمایا : ﴿ فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا ﴾ [ النمل : ۳۷ ] ’’اب ہر صورت ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کے مقابلے کی ان میں کوئی طاقت نہیں۔‘‘ 2۔ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ: یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کیا جاتا تھا، مثلاً جنّوں کا گروہ الگ، انسانوں کا گروہ الگ اور پرندوں کا گروہ الگ، پھر فوجی ترتیب کے مطابق ان کی تقسیم کی جاتی، مثلاً دس دس آدمیوں پر ایک امیر، پھر سو آدمیوں پر امیر، پھر ہزار پر۔ غرض تمام لشکر بہترین تقسیم کے ساتھ مرتب تھے، جس سے نہایت مختصر وقت میں ان کا جائزہ بھی لیا جا سکتا تھا اور جنگی احکام پر عمل درآمد بھی ہو جاتا تھا۔