فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
پھر اگر تم یہ کام نہ کرسکو اور یقیناً تم کر[ ٢٨] بھی نہ سکو گے، تو پھر اس (دوزخ) کی آگ سے ڈر جاؤ[ ٢٨۔ الف ] جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے (وہ دوزخ کی آگ ایسے ہی) کافروں کے[ ٢٩] لئے تیار کی گئی ہے
1۔ عام آگ انسانی جسم اور پتھروں سے بجھ جاتی ہے یا مدہم ہو جاتی ہے، مگر جہنم کی آگ کی حرارت اس قدر ہے کہ انسان اور پتھر اس کا ایندھن بن کر اسے مزید بھڑکائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمھاری آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔‘‘[ بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ النار و أنہا مخلوقۃ : ۳۲۴۹، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] عبد اللہ بن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے فرمایا : ’’یہ پتھر گندھک کے ہوں گے۔‘‘ (طبری) وہ بت بھی مراد ہیں جنھیں کفار پوجتے تھے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۹۸)۔ 2۔ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ: اس سے معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں کے لیے بنائی گئی ہے، کوئی مومن اس میں جائے گا تو کفر کے کسی کام کے ارتکاب کی وجہ ہی سے جائے گا، اگرچہ ہمیشہ اس میں نہیں رہے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم اس وقت بھی موجود ہے، یہی تمام سلف کا عقیدہ ہے، اس کا انکار صریح آیات و احادیث کا انکار ہے۔