إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ڈرتا تو وہ ہے جس نے کوئی ظلم کیا ہو پھر اگر اس نے (بھی) برائی کے بعد (اپنے اعمال کو) نیکی [١١] سے بدل لیا تو میں یقیناً بخشنے والا مہربان ہوں۔
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا....: یعنی میرے حضور ڈرنے کی صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ کسی شخص نے فی الواقع ظلم کیا ہو، اور ظالموں کو ڈرنا ہی چاہیے، لیکن جو شخص ظلم کے بعد توبہ کر لے، برے کاموں کے بعد نیکی کی راہ اختیار کرلے اور اپنا طرزِ عمل بدل لے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں۔ اس کے بعد ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ غالباً اس میں موسیٰ علیہ السلام کے غلطی سے قبطی کو قتل کرنے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے، جسے انھوں نے خود ظلم کہا تھا : ﴿ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ ﴾ [ القصص : ۱۶ ] ’’اے میرے رب ! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا تھا، فرمایا : ﴿ فَغَفَرَ لَهٗ ﴾ [القصص : ۱۶ ] ’’تو اس نے اسے بخش دیا۔‘‘ اب پھر اس مغفرت کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ جب میں تمھیں معاف کر چکا تو تمھیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔