وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
اور اپنے کنبہ کے قریبی رشتہ داروں [١٢٧] کو (برے انجام سے) ڈرائیے
وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ: اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کہ میری قرابت پر بھروسا نہ رکھنا۔ سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرانے کے حکم سے ظاہر ہے کہ جو ان کے علاوہ ہیں انھیں بالاولیٰ ڈرانا ہو گا اور جب قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرانے میں ان کی ناپسندیدگی یا ناراضی کی پروا نہیں کی جائے گی تو دوسروں کی ناراضی یا ناپسندیدگی تو اس کے مقابلے میں معمولی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فریضہ کو اس طرح ادا کیا جیسے اس کا حق تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ جب آیت : ﴿ وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ﴾ اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھے اور آواز دینے لگے : (( يَا بَنِيْ فِهْرٍ! يَا بَنِيْ عَدِيٍّ! لِبُطُوْنِ قُرَيْشٍ، حَتَّی اجْتَمَعُوْا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَّخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُوْلًا لِيَنْظُرَ مَا هُوَ، فَجَاءَ أَبُوْ لَهَبٍ وَ قُرَيْشٌ فَقَالَ أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالْوَادِيْ تُرِيْدُ أَنْ تُغِيْرَ عَلَيْكُمْ أَ كُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ قَالُوْا نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا، قَالَ فَإِنِّيْ نَذِيْرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ، فَقَالَ أَبُوْ لَهَبٍ تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ، أَ لِهٰذَا جَمَعْتَنَا؟ فَنَزَلَتْ : ﴿ تَبَّتْ يَدَا اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ (1) مَا اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿و أنذر عشیرتک الأقربین....﴾ : ۴۷۷۰ ] ’’یا بنی فہر! یا بنی عدی!‘‘ قریش کے مختلف قبائل کو آواز دی، یہاں تک کہ وہ جمع ہو گئے، کوئی آدمی خود نہ آ سکتا تو کسی دوسرے کو بھیج دیتا، تاکہ وہ دیکھے کیا معاملہ ہے۔ غرض ابولہب اور قریش سب آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ بتاؤ کہ اگر میں تمھیں اطلاع دوں کہ اس وادی میں ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہاں! ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’پھر میں تمھیں ایک شدید عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔‘‘ تو ابو لہب نے کہا : ’’تیرے لیے سارا دن ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا ہے؟‘‘ اس پر یہ سورت اتری : ﴿ تَبَّتْ يَدَا اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ (1) مَا اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ ﴾ [ اللھب : ۱، ۲ ] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَا بَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ! اشْتَرُوْا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللّٰهِ، يَا بَنِيْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! اشْتَرُوْا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللّٰهِ، يَا أُمَّ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَمَّةَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ! يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ! اشْتَرِيَا أَنْفُسَكُمَا مِنَ اللّٰهِ، لَا أَمْلِكُ لَكُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا، سَلَانِيْ مِنْ مَالِيْ مَا شِئْتُمَا )) [ بخاري، المناقب، باب من انتسب إلی آبائہ ....: ۳۵۲۷ ] ’’اے بنی عبد مناف! اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، اے بنی عبد المطلب! اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، اے زبیر بن عوام کی ماں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی (صفیہ)! اے فاطمہ بنت محمد! تم دونوں اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، میں اللہ کے ہاں تمھارے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا، مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اور اپنے چچا عباس کو بھی مخاطب فرمایا۔ [ دیکھیے بخاري، التفسیر، باب : ﴿و أنذر عشیرتک....﴾ : ۴۷۷۱ ]