كَذَٰلِكَ سَلَكْنَاهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ
اس طرح ہم نے مجرموں کے دل میں (بس بیہودہ اعتراضات کرنا ہی) ڈال [١١٨] دیا ہے۔
كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ ....: ’’سَلَكَ يَسْلُكُ‘‘ پرونا، سوئی میں دھاگا داخل کرنا، کسی چیز کو دوسری کے اندر گھسا دینا۔ ’’ سَلَكْنٰهُ ‘‘ میں ’’هٗ‘‘ کی ضمیر اس انکار اور تکذیب کی طرف جا رہی ہے جس کا ذکر پچھلی آیت ’’ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِيْنَ ‘‘ میں ہے، یعنی ہم نے اس ایمان نہ لانے کو ان مجرموں کے جرائم کی پاداش میں ان کے دلوں کے اندر اس طرح داخل کر دیا ہے جس طرح سوئی میں دھاگا داخل کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ لوگ اس پر ایمان نہیں لائیں گے، حتیٰ کہ ’’عذاب اليم‘‘ دیکھ لیں۔ اس میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لانا ہی نہیں تو ان پر آپ غم زدہ کیوں ہوتے ہیں۔ آیت کے سیاق کے لحاظ سے یہی معنی راجح ہے۔ بعض مفسرین نے ’’ سَلَكْنٰهُ ‘‘ میں ’’هُ‘‘ کی ضمیر کا مرجع قرآن کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ قرآن کا حق ہونا تو ان کے دلوں میں اتار دیا گیا ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ…۔ (اشرف الحواشی) بعض نے اس کا مرجع قرآن کو قرار دے کر اس کی تفسیر اس طرح کی ہے : ’’یعنی یہ اہلِ حق کے دلوں کی طرح تسکینِ روح اور شفائے قلب بن کر ان کے اندر نہیں اترتا، بلکہ ایک گرم لوہے کی سلاخ بن کر اس طرح گزرتا ہے کہ وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اس کے مضامین پر غور کرنے کے بجائے اس کی تردید کے لیے حربے ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن)