وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ
اور یقیناً اس کا ذکر پہلے صحیفوں میں موجود [١١٥] ہے۔
وَ اِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ:’’ زُبُرِ ‘‘ ’’زَبُوْرٌ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی کتاب ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ كُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ ﴾ [ القمر : ۵۲ ] ’’اور ہر چیز جسے انھوں نے کیا، وہ دفتروں میں درج ہے۔‘‘ اس آیت میں دو مفہوم شامل ہیں، ایک یہ کہ اس قرآن میں جو احکام و تعلیمات ہیں وہ پہلے انبیاء و رسل کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ سب کتابیں اللہ کی توحید، آخرت، اس کے رسولوں پر ایمان اور ان کی اطاعت کے حکم پر مشتمل ہیں اور سب میں شرک اور اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا یہ کتاب کوئی انوکھی یا پہلی کتابوں سے الگ تعلیمات پر مشتمل نہیں ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس قرآن کا تذکرہ پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے، کیونکہ ان میں واضح الفاظ میں اس قرآن کو لانے والے پیغمبر کی آمد کی بشارت دی گئی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ ﴾ [الأعراف : ۱۵۷ ] ’’وہ جس کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔‘‘ اور عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : ﴿ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗ اَحْمَدُ ﴾ [ الصف : ۶ ] ’’اور میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہے۔‘‘ تورات و انجیل کے حوالوں کے لیے مذکورہ بالا آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔