عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ
تاکہ آپ ڈرانے [١١٣] والوں میں شامل ہوجائیں۔
1۔ عَلٰى قَلْبِكَ: دوسری جگہ فرمایا : ﴿ قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ [ البقرۃ : ۹۷ ] ’’کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے۔‘‘ یعنی اس قرآن مجید کو جبریل علیہ السلام نے کانوں کے ذریعے سے آپ کو سنانے کے بجائے آپ کے دل پر نازل کیا ہے۔ اگرچہ کانوں نے بھی دل ہی کو بات پہنچانی ہے، مگر بلاواسطہ دل پر نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسے سمجھنے میں اور یاد رکھنے میں کوئی کمی نہ رہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰى (6) اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ ﴾ [ الأعلٰی : ۶، ۷ ] ’’ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تُو نہیں بھولے گا، مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ قیامہ (۱۶ تا ۱۹)۔ 2۔ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ : یہ کہنے کے بجائے کہ ’’تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے‘‘ فرمایا ’’تاکہ تو انبیاء و رسل کی عظیم الشان جماعت میں شامل ہو جائے‘‘ کیونکہ اس میں آپ کی زیادہ عظمت کا اظہار ہے۔ اگرچہ رسول ’’نذیر‘‘ بھی ہوتے ہیں اور ’’بشیر‘‘ بھی، مگر یہاں ’’منذر‘‘ ہونے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس سورت کا سارا بیان ہی انبیاء کے اپنی اقوام کو ڈرانے پر مشتمل ہے اور جیسا کہ پہلے گزرا کہ جب تک کسی شخص یا قوم کو اپنے غلط راستے پر چلنے کے خوفناک نتائج سے آگاہ نہ کیا جائے اس کا راہِ راست پر آنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے ہر پیغمبر نے اپنی بات کا آغاز ’’ اَلَا تَتَّقُوْنَ ‘‘ سے فرمایا۔