قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ
تمہارے لیے ان دو گروہوں میں نشان عبرت ہے جو (بدر میں) ایک دوسرے کے مقابلہ پر اترے۔ ان میں سے ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا جو ظاہری آنکھوں سے مسلمانوں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہا تھا۔ مگر اللہ تو اپنی مدد [١٤] سے اس کی تائید کرتا ہے جس کی وہ چاہتا ہے۔ اس واقعہ میں بھی صاحب نظر لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے
1۔ قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰيَةٌ....: یعنی اوپر جو پیشین گوئی (یہودی) کافروں کے مغلوب اور جہنم واصل ہونے کی ذکر ہوئی ہے اس کے سچ ہونے کے لیے معرکۂ بدر میں بہت بڑی آیت (دلیل) موجود تھی۔ 2۔ يَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَيْهِمْ:اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ مسلمان کفار کو اپنے سے صرف دگنا دیکھ رہے تھے، حالانکہ وہ ان سے تین گنا تھے، تاکہ مسلمان ثابت قدم رہیں، چنانچہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ دوسرا یہ کہ کفار مسلمانوں کو اپنے سے دگنا دیکھ رہے تھے، حالانکہ ان کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور مسلمان کل ۳۱۳ تھے، مگر مسلمان دگنا اس لیے نظرآتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت کے لیے فرشتے بھیج دیے تھے اور اللہ اپنی نصرت کے ساتھ جسے چاہے قوت بخشتا ہے۔ اکثر مفسرین نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسرے کو۔ (ابن کثیر، شوکانی) مزید دیکھیے سورۂ انفال (۴۳، ۴۴)۔