الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ
جس نے مجھے پیدا کیا، وہی میری رہنمائی [٥٤] کرتا ہے۔
الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ : ’’ يَهْدِيْنِ ‘‘ اصل میں ’’يَهْدِيْنِيْ‘‘ ہے، آیات کے آخری حروف کی موافقت کے لیے یاء حذف کر دی گئی ہے، نون کا کسرہ اس کی دلیل ہے۔ آئندہ آیات کے اندر ’’ يَسْقِيْنِ ‘‘، ’’ يَشْفِيْنِ ‘‘ اور ’’ يُحْيِيْنِ ‘‘ میں بھی یاء محذوف ہے۔ یہاں سے ابراہیم علیہ السلام نے رب العالمین کی وہ صفات بیان کی ہیں جن کی وجہ سے وہ عبادت کا حق دار ہے، یعنی ’’رب العالمين‘‘ وہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔ یہاں ’’ الَّذِيْ خَلَقَنِيْ ‘‘ (وہ جس نے مجھے پیدا کیا) کے بعد ’’ فَهُوَ يَهْدِيْنِ ‘‘ (پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے) حصر کے ساتھ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پیدا کرنے کا دعویٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے متعلق موجود ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہا جائے کہ اسی نے مجھے پیدا کیا ہے، جبکہ ہدایت کا دعویٰ بہت سی ہستیوں کے متعلق ہے، اس لیے فرمایا کہ پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے، اور کوئی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم مانتے ہو کہ اس نے پیدا کیا تو مانو کہ ہدایت بھی وہی دیتا ہے۔ ’’ الَّذِيْ خَلَقَنِيْ ‘‘ (جس نے مجھے پیدا کیا) ماضی کے ساتھ ہے، کیونکہ پیدا تو وہ کر چکا، جبکہ ’’ فَهُوَ يَهْدِيْنِ ‘‘ (پھر وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے) مضارع ہے، کیونکہ ہدایت کی ضرورت ہر ہر لمحے میں ہے اور وہ ہر لمحے مجھے ہدایت دیتا ہے۔ پیدائش کے بعد سب سے زیادہ اہم ہدایت ہے، اس لیے ان دونوں کا ذکر سب سے پہلے فرمایا۔