فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ
چنانچہ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور کہنے لگے : ’’فرعون کی جے! یقیناً ہم ہی غالب [٣٤] رہیں گے‘‘
وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ....: فرعون کی تعظیم کے لیے اس کی عزت کی قسم کھائی کہ ہم ضرور ہی جیتیں گے۔ اس سے جادوگروں کا مقصد فرعون کو خوش اور موسیٰ علیہ السلام کو مرعوب کرنا تھا۔ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی قسمیں کھایا کرتے تھے، اسلام میں اس سے منع کر دیا گیا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَلاَ إِنَّ اللّٰهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوْا بِآبَائِكُمْ مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللّٰهِ أَوْ لِيَصْمُتْ )) [ بخاری، الأیمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائکم : ۶۶۴۶ ] ’’خبر دار! اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جسے قسم کھانی ہو وہ اللہ کی قسم کھائے، یا خاموش رہے۔‘‘ اس کے باوجود آج کل بعض مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات کی قسم کھانے پر مطمئن نہیں ہوتے، بلکہ اپنے پیر و مرشد یا کسی بزرگ کی قبر کی قسم کھاتے ہیں، یا عام رواج کے مطابق کہہ دیتے ہیں مجھے تیری قسم یا تیرے سر کی قسم وغیرہ، اس طرح وہ دوسروں کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں، تو جس طرح اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے مخلوق کی سچی قسم کھانا اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے۔