خَالِدِينَ فِيهَا ۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے کیا ہی اچھی جائے قرار [٩٤] اور قیام گاہ ہے۔
1۔ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ:’’ مَا ‘‘ یہاں نافیہ بھی ہو سکتا ہے اور استفہامیہ بھی، یعنی میرا رب تمھاری پروا نہیں کرتا، یا میرا رب تمھاری کیا پروا کرے گا؟ ’’میرا رب‘‘ اس لیے فرمایا کہ خطاب کفار سے ہے، جو کما حقہ اسے رب نہیں مانتے۔ 2۔ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ: یہ خطاب کفار سے ہے، کیونکہ آگے فرمایا ہے: ﴿فَقَدْ كَذَّبْتُمْ ﴾ ’’سو بے شک تم نے جھٹلا دیا۔‘‘ ’’دُعَآؤُكُمْ ‘‘ کا معنی ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ’’إِيْمَانُكُمْ‘‘ کیا ہے۔ [ طبري بطریق علي بن أبي طلحۃ و ذکرہ البخاري ] یعنی میرا رب تمھیں مہلت اس لیے دے رہا ہے کہ تم اس پر ایمان لے آؤ، اس کی عبادت کرو اور اس سے دعا کرو، کیونکہ اس نے جنّ و انس کو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا ہے، سو اگر تم ایمان لا کر اس کی عبادت نہ کرو اور اس کے حضور دعائیں نہ کرو تو اسے تمھاری کچھ پروا نہیں ہے۔ ایک تفسیر اس کی یہ بھی ہے کہ کفار بھی شدید مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے ان کی التجا سن کر مصیبت دور بھی کر دیتا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۴۰، ۴۱)، یونس (۲۲)، عنکبوت (۶۵)، روم (۳۳) اور لقمان (۳۲) فرمایا، اللہ تعالیٰ جو تمھیں مہلت دے رہا ہے اور تمھاری پکار پر مشکلات بھی دور کر دیتا ہے، یہ صرف تمھارے اس کو پکارنے کی وجہ سے ہے، اس کے باوجود تم نے جھٹلا دیا ہے تو سن لو کہ اس کا عذاب تمھیں پہنچ کر رہے گا۔ چنانچہ دنیا ہی میں جنگِ بدر اور دوسرے موقعوں پر انھوں نے وہ عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور قیامت بھی کچھ دور نہیں۔