أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا
یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے صبر کا بدلہ (بہشت کے) بالا خانوں [٩٣] کی صورت میں پائیں گے، وہاں دعائے حیات اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال ہوگا۔
1۔ اُولٰٓىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ....:’’ غُرْفَةٌ ‘‘ ہر بلند عمارت اور اونچا محل، بالا خانہ۔ ’’ الْغُرْفَةَ ‘‘ سے مراد کوئی ایک بالا خانہ نہیں بلکہ مراد جنس ہے، یعنی عباد الرحمان کو صبر کے بدلے جنت کے بالا خانے یعنی اونچے محل عطا کیے جائیں گے، جن کی بلندی ان کے مراتب کے اعتبار سے ہو گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ، كَمَا يَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَيْنَهُمْ )) [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ....: ۳۲۵۶ ]’’اہلِ جنت اپنے اوپر کی طرف بالا خانوں والوں کو دیکھیں گے جیسے تم مشرق یا مغرب کے افق پر دور چمک دار تارے کو دیکھتے ہو، ان کی ایک دوسرے کے درمیان درجوں کی برتری کی وجہ سے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ زمر (۲۰) اور عنکبوت (۵۸)۔ 2۔ بِمَا صَبَرُوْا: یعنی عباد الرحمان کو یہ نعمت ان کے صبر کی وجہ سے حاصل ہو گی کہ انھوں نے نیکی پر صبر کیا، برائی سے اجتناب پر صبر کیا اور راہِ حق میں پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ [الزمر : ۱۰ ] ’’صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔‘‘ 3۔ وَ يُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّ سَلٰمًا : ’’ تَحِيَّةً ‘‘ ’’حَيّٰ يُحَيِّيْ‘‘ کا مصدر ہے، زندگی کی دعا دینا۔ رب تعالیٰ اور فرشتوں کی طرف سے جنتیوں کے استقبال اور سلام کے لیے دیکھیے سورۂ رعد (۲۳، ۲۴)، انبیاء (۱۰۱ تا ۱۰۳)، زمر (۷۳) اور سورۂ یٰس (۵۵ تا ۵۸)۔