وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا
اور جب انھیں اپنے رب کی آیات سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر اندھے اور بہرے [٩0] ہو کر نہیں گرتے (بلکہ ان کا گہرا اثر (91) قبول کرتے ہیں)
وَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ....: ’’بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے‘‘ بلکہ وہ انھیں نہایت غور و فکر سے سنتے اور ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں۔ اس میں کفار پر چوٹ ہے کہ وہ اپنے رب کی آیات سن کر ذرہ بھر متاثر نہیں ہوتے، بلکہ اپنے کفر پر سختی سے جمے رہتے ہیں۔ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے کفار کا یہی نقشہ کھینچا ہے، فرمایا: ﴿وَ اِنِّيْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْا اَصَابِعَهُمْ فِيْ اٰذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَ اَصَرُّوْا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا﴾ [نوح : ۷ ] ’’اور بے شک میں نے جب بھی انھیں دعوت دی، تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور اَڑ گئے اور تکبر کیا، بڑا تکبر کرنا۔‘‘ کفار کی اس حالت کے بیان کے لیے دیکھیے سورۂ حم السجدہ (۵، ۲۶)۔ زمخشری نے فرمایا کہ اس کا معنی یہ نہیں کہ رحمان کے بندے آیات کے ساتھ نصیحت سن کر گرتے نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ سنتے اور دیکھتے ہوئے گر جاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۠﴾ [السجدۃ : ۱۵ ] ’’ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انھیں ان کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْاسُجَّدًا وَّ بُكِيًّا﴾ [مریم : ۵۸ ] ’’جب ان پر رحمان کی آیات پڑھی جاتی تھیں وہ سجدہ کرتے اور روتے ہوئے گر جاتے تھے۔‘‘