وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا
اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ گویا اللہ کی طرف یوں رجوع کرتا ہے جیسا کہ رجوع کرنے [٨٨] کا حق ہے۔
وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ....: یہاں ایک سوال یہ ہے کہ پچھلی آیت میں توبہ کے ذکر کے بعد دوبارہ توبہ کے ذکر میں کیا حکمت ہے؟ اور ایک یہ کہ یہ کہنا کہ ’’جو شخص توبہ کرے تو وہ توبہ کرتا ہے…‘‘ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے ’’مَنْ قَامَ فَإِنَّهُ يَقُوْمُ‘‘ یعنی جو کھڑا ہو تو وہ کھڑا ہوتا ہے، تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اس کا جواب کئی طرح سے دیا گیا ہے، ایک یہ کہ اس میں توبہ کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ جو شخص توبہ کرے اور عمل صالح کرے، تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اس توبہ کے ساتھ کسی معمولی ہستی کی طرف پلٹ کر نہیں جا رہا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ کر جا رہا ہے، جو بندے کی توبہ سے بہت محبت کرتا ہے اور اس کی توبہ معمولی نہیں بلکہ بڑی شان والی اور سچی توبہ ہے۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ پچھلی آیت میں بھی عملِ صالح کا ذکر تھا مگر اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے اسے پھر دہرایا اور فرمایا کہ صرف زبانی توبہ اللہ کے ہاں معتبر نہیں، اس کے مطابق عمل بھی ضروری ہے، چنانچہ جو شخص توبہ کرے اور نیک اعمال کرے وہ اللہ کی طرف سچی اور حقیقی توبہ کرتا ہے اور جو قدرت کے باوجود عمل نہ کرے اس کا توبہ کا دعویٰ قبول نہیں اور اس کی توبہ سچی اور حقیقی نہیں، بلکہ جھوٹی اور بے کار ہے۔ تیسرا یہ کہ پچھلی آیت میں کفر کے زمانے میں کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کا ذکر تھا، اس آیت میں مسلمان ہونے کے بعد کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کا ذکر ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد بھی کوئی شخص کسی بھی گناہ سے توبہ کرے تو اس کی توبہ بھی سچی اور مقبول توبہ ہو گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما مسلمان قاتل کی توبہ قبول ہونے کے قائل نہیں، اس آیت سے اس کی توبہ کا قبول ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نساء کی آیت (۹۳): ﴿وَ مَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا ﴾ کی تفسیر۔