وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
اور رحمٰن کے (حقیقی) بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری [٨٠] سے چلتے ہیں اور اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو بس سلام [٨١] کہہ کر (کنارہ کش رہتے ہیں)
1۔ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ....: اللہ تعالیٰ کا عبد (بندہ) ہونے کی دو حیثیتیں ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ رب ہے اور یہ اس کا بندہ ہے، اس بندگی میں ساری مخلوق شریک ہے، مسلم ہوں یا کافر، نیک ہوں یا بد، سب اللہ کے عبد (بندے) ہیں، وہ سب کا رب ہے، فرمایا: ﴿اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّا اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا﴾ [مریم : ۹۳ ] ’’آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔‘‘ دوسری حیثیت عبد ہونے کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معبود ہے اور یہ اس کی عبادت اور بندگی کرنے والا ہے۔ اس معنی میں عباد الرحمن (رحمان کے بندے) صرف انبیاء، اولیاء اور اس کے نیک بندے ہیں۔ اس لحاظ سے جب کسی کو عبد اللہ (اللہ کا بندہ) کہا جاتا ہے، تو اسے مخلوق کے مرتبوں میں سے سب سے اونچے مرتبے پر فائز کیا جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱) اور سورۂ جن (۱۹)۔ 2۔ رحمان کی عبادت کے لحاظ سے بندوں کی ایک قسم کا ذکر پچھلی آیات میں گزرا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو تو وہ جانتے بوجھتے ہوئے شوخی و شرارت اور سرکشی و تکبر کے ساتھ رحمان کو جاننے ہی سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں رحمان ہے کیا چیز؟ اور مزید بدک جاتے ہیں، حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ رحمان کون ہے۔ اب رحمان کے ان بندوں کا ذکر ہے جو واقعی رحمان کی بندگی کرتے ہیں اور رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے سے اور کائنات کی ہر چیز سے نصیحت حاصل کرتے اور مالک کا شکر ادا کرتے ہیں، فرمایا: ﴿لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا﴾ [الفرقان : ۶۲ ] ’’اس کے لیے جو چاہے کہ نصیحت حاصل کرے، یا کچھ شکر کرنا چاہے۔‘‘ اور ان کی ان صفات کا ذکر ہے جو رحمان کی بندگی سے پیدا ہوتی ہیں، جن سے وہ لوگ سراسر محروم رہتے ہیں جو رحمان کو سجدہ کرنے کے حکم پر سرکشی اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں، نہ شکر اد اکرتے ہیں۔ 3۔ ’’ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ ‘‘ کے لفظ میں اشارہ ہے کہ ان کی یہ صفات ان پر رحمان کی رحمت کا نتیجہ ہیں۔ 4۔ ’’عباد الرحمان‘‘ کے سب سے پہلے مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں جو ان آیات میں ذکر کر دہ تمام صفات کے ساتھ متصف تھے۔ (دیکھیے فتح : ۲۹) اس کے بعد قیامت تک آنے والے تمام متقی مومن اس کے مصداق ہیں۔ اسی طرح ’’عباد الشیطان‘‘ کے سب سے پہلے مصداق ابو لہب، ابوجہل اور ان کے ساتھی ہیں، ان کے بعد قیامت تک آنے والے تمام کفار و فجار۔ 5۔ عباد الرحمان کی صفات جو اس مقام پر بیان ہوئی ہیں، چار قسم کی ہیں، پہلی قسم ان کا دینی کمالات کے ساتھ آراستہ ہونا ہے، ان کی ابتدا ’’ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا‘‘سے ہوتی ہے۔ دوسری قسم ان کا ہر طرح کے رذائل اور کمینگیوں سے پاک ہونا ہے، یہ ’’ وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‘‘سے شروع ہوتی ہے۔ تیسری قسم ان کا اسلام کے احکام پر کار بند ہونا ہے، ان صفات کا ذکر آیت (۶۴): ﴿وَ الَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا ﴾ اور آیت (۶۷): ﴿وَ الَّذِيْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا....﴾اور آیت (۶۸): ﴿وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ ﴾ سے لے کر آیت (۷۲): ﴿وَ الَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ﴾ تک میں ہے اور چوتھی قسم ان کی طرف سے اس بات کی مسلسل کوشش اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ان کی دینی حالت بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے، اس کا ذکر آیت (۷۴): ﴿وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا ﴾ میں ہے۔ (ابن عاشور) 6۔ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا : ’’ هَوْنًا ‘‘ نرمی، مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے : ’’أَيْ مَشْيًا ذَا هَوْنٍ‘‘ یعنی بہت نرمی والی چال چلتے ہیں۔ یعنی رحمان کے محبوب بندے وہ ہیں جو تواضع اور عاجزی اختیار کرتے ہیں اور جب زمین پر چلتے ہیں تو نرمی کے ساتھ چلتے ہیں نہ کہ فساد برپا کرنے والوں اور ظلم و جبر کرنے والوں کی طرح اینٹھتے اور اکڑتے ہوئے۔ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی: ﴿وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ﴾ [لقمان : ۱۸ ] ’’اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک اللہ کسی اکڑنے والے، فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ نرمی کی چال سے مراد سکون اور وقار کی چال ہے نہ کہ دکھاوے کے لیے بناوٹ کے ساتھ مریضوں کی طرح چلنا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح چلتے تھے : ’’ كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ عَنْ صَبَبٍ ‘‘ (گویا ڈھلوان کی طرف اتر رہے ہوں۔) [ مسند أحمد :1؍96، ح : ۷۴۹، قال المحقق سندہ قوي ] ابو طفیل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے بارے میں بیان کرتے ہیں: ((كَانَ أَبْيَضَ مَلِيْحًا، إِذَا مَشَی كَأَنَّمَا يَهْوِيْ فِيْ صَبُوْبٍ )) [ أبوداؤد، الأدب ، باب في ھدی الرجل : ۴۸۶۴، وقال الألبانی صحیح ] ’’آپ سفید رنگ اور انتہائی خوبصورت تھے، جب چلتے تو گویا ڈھلوان میں اتر رہے ہوں۔‘‘ زمین پر نرمی کے ساتھ چلنے میں عام زندگی کا چال چلن بھی شامل ہے، کیونکہ آدمی کی چال اس کے چلن ہی کے مطابق ہوتی ہے۔ رحمان کے بندوں کی چال اور ان کا چلن دونوں سے تواضع اور نرمی کا اظہار ہوتا ہے، ان میں نہ تکبر ہوتا ہے نہ شدت، ہاں، کفار کے مقابلے میں وہ اکڑ کر بھی چلتے ہیں اور ان میں شدت بھی ہوتی ہے، جیسا کہ طواف کے اندر رمل کے حکم سے ظاہر ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ﴾ [الفتح : ۲۹ ] ’’محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ﴾ [المائدۃ : ۵۴ ] ’’مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت۔‘‘ 7۔ وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا : ’’جَهْل‘‘ کا لفظ یہاں ’’علم‘‘ کے مقابلے میں نہیں بلکہ ’’حلم‘‘ کے مقابلے میں ہے۔’’الْجٰهِلُوْنَ‘‘کے لفظ سے یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ عباد الرحمن لوگوں سے ہمیشہ علیحدگی اور ترکِ کلام اختیار نہیں کرتے، بلکہ صرف ان کی جہالت اور اکھڑ پن کے رویے پر انھیں ترکی بہ ترکی جواب دینے اور جھگڑنے کے بجائے سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ﴾ [القصص : ۵۵ ] ’’اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔ سلام ہے تم پر، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔‘‘ ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَنَا زَعِيْمٌ بِبَيْتٍ فِيْ رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَ بِبَيْتٍ فِيْ وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَ بِبَيْتٍ فِيْ أَعْلَی الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب في حسن الخلق : ۴۸۰۰، و حسنہ الألباني ] ’’میں جنت کے اطراف میں مکان کا ضامن ہوں، اس شخص کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے خواہ حق دار ہو اور جنت کے وسط میں مکان کا ضامن ہوں اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے خواہ مذاق سے ہو اور جنت کے سب سے بلند مقام پر مکان کا ضامن ہوں اس شخص کے لیے جو اپنا خلق (اخلاق) اچھا بنا لے۔‘‘