وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اور (اے نبی) ہم نے تو آپ کو بس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا [٦٩] بناکر بھیجا ہے۔
وَ مَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا : اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لیے تسلی ہے اور کفار کے لیے تنبیہ، یعنی اگر کافر ایمان نہیں لاتے اور اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کی دشمنی اور مخالفت سے باز نہیں آتے تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں، آپ کا کام حق قبول کرنے والوں کو بشارت دینا اور اسے ٹھکرانے والے کو ڈرانا ہے اور بس۔ کفار کو سمجھایا جا رہا ہے کہ جس رسول کی دشمنی پر تم کمر باندھے ہوئے ہو وہ تو سر سے پاؤں تک تمھارا خیر خواہ ہے، وہ تمھیں ایمان قبول کرنے پر جنت کی خوش خبری دینے والا اور ایمان سے انکار کرنے پر اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہے، ایسے خیر خواہ سے دشمنی رکھنا تمھیں زیب دیتا بھی ہے؟