وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا
اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا [٦٥] رکھا ہے جن میں سے ایک کا پانی لذیذ و شیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔ پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کردی ہے۔[٦٦]
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ....: ’’فُرَاتٌ‘‘ ’’فَرُتَ يَفْرُتُ‘‘ کا معنی توڑ دینا ہے، میٹھا پانی پیاس کو ختم کرتا ہے، اس لیے اسے ’’فُرَاتٌ‘‘ کہتے ہیں۔ توحید کے دلائل جو ’’اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ‘‘سے شروع ہوئے تھے یہ ان کا چوتھا سلسلہ ہے۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی قدرت کے کمال اور انسان پر اس کے انعامات تینوں چیزوں کا بیان ہے۔ اس کی ہم معنی آیت سورۂ رحمن میں ہے: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ (19) بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ﴾ [الرحمٰن : ۱۹، ۲۰ ] ’’اس نے دو سمندروں کو ملادیا ، جو اس حال میں مل رہے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے (جس سے) وہ آگے نہیں بڑھتے۔‘‘ ’’ وَ هُوَ الَّذِيْ ‘‘ میں مبتدا اور خبر دونوں کے معرفہ ہونے سے قصر کا مفہوم ادا ہو رہا ہے کہ دو سمندروں کو اس طرح ملانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ زمین کے تقریباً ستر (۷۰) فیصد حصے پر سمندر ہے جس کا پانی سخت نمکین ہے، بظاہر اس کے ساتھ ملا ہوا میٹھے پانی کا کوئی سمندر نہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کسی صورت غلط نہیں ہو سکتی۔ اس لیے مفسرین نے آیت کے کئی مصداق بیان فرمائے ہیں اور سبھی درست ہیں۔ ایک مصداق اس کا یہ ہے کہ عربی میں بحر کا لفظ پانی کے بڑے ذخیرے پر بولا جاتا ہے، اس لیے یہ لفظ سمندر اور دریا دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تو اس سے مراد زمین پر موجود پانی کے دو بڑے ذخیرے ہیں، ایک میٹھا جو دریاؤں، جھیلوں اور ندی نالوں کی صورت میں ہے اور دوسرا کڑوا جو سمندر کی صورت میں ہے۔ ایک دوسرے کے قریب ہونے کے باوجود دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے زمین کی اوٹ بنا دی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی جگہ رہتے ہیں، نہ نمکین میٹھے پر غالب آتا ہے اور نہ میٹھا نمکین پر۔ اس کا واضح مشاہدہ جزیروں پر ہوتا ہے، جہاں سمندر کے سخت نمکین پانی کے ساتھ ہی میٹھے پانی کا دریا چل رہا ہوتا ہے۔ دوسرا مصداق اس کا یہ ہے کہ اس سے مراد زمین کے نیچے موجود پانی کے دو سمندر ہیں، جن میں سے ہر ایک کی رو دوسرے کی رو کے بالکل ساتھ چل رہی ہے، ایک جگہ نلکا لگائیں تو میٹھا پانی نکلتا ہے اور بعض اوقات اس کے قریب ہی دوسرا نلکا لگانے سے نمکین پانی نکلتا ہے، حتیٰ کہ دیوار کی ایک طرف کا پانی میٹھا ہوتا ہے اور دوسری طرف کا نمکین، نہ یہ اس کی نمکینی میں دخل دیتا ہے اور نہ وہ اس کی شیرینی میں۔ میری دانست میں یہ صورت سب سے واضح ہے، ہر شخص اس کا مشاہدہ کر سکتا ہے اور اس پر کسی ملحد کے لیے اعتراض کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ تیسرا مصداق اس کا وہ مقام ہے جہاں کسی بڑے دریا کا پانی سمندر میں گرتا ہے اور اس کے اندر دور تک چلا جاتا ہے، اس کا رنگ اور ذائقہ سمندر کے پانی کے رنگ اور ذائقے سے الگ رہتا ہے، دونوں کے درمیان نظر نہ آنے والی رکاوٹ حائل رہتی ہے۔ مفسر ابوحیان لکھتے ہیں : ’’ وَ نِيْلُ مِصْرَ فِيْ فَيْضِهِ يَشُقُّ الْبَحْرَ الْمَالِحَ شَقًّا بِحَيْثُ يَبْقٰي نَهْرًا جَارِيًا أَحْمَرَ فِيْ وَسْطِ الْمَالِحِ لِيَسْتَقِي النَّاسُ مِنْهُ ‘‘ [ البحر المحیط ] ’’یعنی مصر کا دریائے نیل اپنی طغیانی کے زمانے میں نمکین سمندر کو چیرتا ہوا شور سمندر کے وسط میں سرخ رنگ کے دریا کی صورت میں دور تک بہتا چلا جاتا ہے، جس سے لوگ پینے کے لیے پانی حاصل کرتے ہیں۔‘‘ چوتھا مصداق اس کا یہ ہے کہ کھارے اور کڑوے سمندر کے درمیان ایسے ذخیرے موجود ہیں جن کا پانی بالکل میٹھا ہے۔ ابو حیان ہی نے لکھا ہے : ’’ وَ تَرَي الْمِيَاهَ قِطْعًا فِيْ وَسْطِ الْبَحْرِ الْمَالِحِ فَيَقُوْلُوْنَ هٰذَا مَاءٌ ثَلْجٌ فَيَسْقُوْنَ مِنْهُ مِنْ وَسْطِ الْبَحْرِ‘‘ [ البحر المحیط] ’’یعنی نمکین سمندر کے وسط میں (میٹھے) پانی ٹکڑوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں، جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ برف کا پانی ہے اور وہ سمندر کے درمیان اس سے پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں۔‘‘ تفہیم القرآن میں ہے : ’’خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں، جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی) اپنی کتاب ’’مرأۃ الممالک‘‘ میں (جو سولھویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے) خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے، اس نے لکھا ہے کہ وہاں آبِ شور کے نیچے آبِ شیریں کے چشمے ہیں، جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداءً وہ بھی خلیج فارس کے انھی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی، بعد میں ’’ظہران‘‘ کے پاس کنویں کھود لیے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہ میں آبِ شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘ 2۔ اس آیت میں نعمت کی یاد دہانی کس طرح ہے، اس کے لیے میٹھے اور نمکین سمندروں میں سے میٹھے پانی کے فوائد بیان کرنے کی تو خاص ضرورت ہی نہیں، کیونکہ خشکی کے ہر جان دار کی زندگی کا دار و مدار اسی پر ہے، البتہ نمکین سمندر میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا مشاہدہ کئی طرح سے ہوتا ہے۔ ’’تفسیر احسن البیان‘‘ میں ہے : ’’سمندری پانی کھارا رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے۔ میٹھا پانی زیادہ دیر کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے، اس کے ذائقے، رنگ یا بو میں تبدیلی آ جاتی ہے، کھارا پانی خراب نہیں ہوتا، نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے، نہ رنگ اور بو۔ اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا تو اس میں بدبو پیدا ہو جاتی، جس سے انسانوں اور حیوانوں کا زمین میں رہنا مشکل ہو جاتا۔ اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد۔ اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں (لاکھوں) برس سے یہ سمندر موجود ہیں، ان میں ہزاروں (لاکھوں بلکہ کروڑوں) جانور مرتے ہیں اور انھی میں گل سڑ جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں ملاحت (نمکیات) کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی، ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور ان کا پانی بھی پاک ہے، حتیٰ کہ ان کا مردار بھی حلال ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ((هُوَ الطَّهُوْرُ مَاءُهُ وَ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ )) [أبوداؤد، الطہارۃ، باب الوضوء بماء البحر : ۸۳ ] ’’اس (سمندر) کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔‘‘ (احسن البیان) پانی کا یہ عظیم ذخیرہ ہزاروں لاکھوں ٹن وزنی سامان مختلف مقامات پر پہنچانے کا آسان ترین ذریعہ بھی ہے، خوراک اور ضروریات زندگی کا لا محدود خزانہ بھی اور تمام جان داروں اور پودوں کو میٹھا پانی مہیا کرنے کے لیے بادلوں اور بارشوں کی پیدائش کا منبع بھی۔ اس کے علاوہ موسموں کے رد و بدل میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ فاطر (۱۲)، نحل (۱۴)، حج (۶۵)، زخرف (۱۱، ۱۲) اور جاثیہ (۱۲)۔