فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا
لہٰذا آپ کافروں کا بات نہ مانئے اور اس قرآن کی ہدایات کے مطابق ان سے زبردست جہاد [٦٤] کیجئے۔
1۔ فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ: چونکہ ہم نے ہر بستی کی طرف الگ الگ نذیر بھیجنے کے بجائے تمام جہانوں کے لیے آپ ہی کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، اس لیے آپ کافروں کا کہنا مت مانیے، خواہ وہ معجزوں کا مطالبہ کریں یا طعن و تشنیع اور ٹھٹھے مذاق کے ساتھ دعوت سے روکنے کی کوشش کریں، یا مدا ہنت کی پیش کش کریں، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ﴾ [ القلم : ۹ ] ’’ وہ چاہتے ہیں کاش! تو نرمی کرے تو وہ بھی نرمی کریں۔‘‘ 2۔ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا: ’’جَاهَدَ يُجَاهِدُ جِهَادًا وَ مُجَاهَدَةً‘‘ (مفاعلہ) کسی کے مقابلے میں اپنی پوری کوشش صرف کر دینا۔ ’’ بِهٖ ‘‘ سے مراد قرآن مجید ہے، جس کا تذکرہ ’’ وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ ‘‘ میں گزرا ہے اور جس کے ذکر کے ساتھ سورت کی ابتدا ہوئی ہے، فرمایا: ﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ ﴾ یعنی اگر ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیجا جاتا تو آپ کے بوجھ میں کمی ہو جاتی، اب تمام لوگوں تک پیغام پہنچانے کی ذمہ داری کی وجہ سے آپ کا بوجھ بہت زیادہ ہو گیا ہے، اس لیے آپ اس قرآن کو لے کر جہاد کبیر کریں۔ ’’جہاد کبیر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ ظاہر ہے اس سے مراد اپنی آخری کوشش تک لگا دینا ہے، یعنی دعوت کے ذریعے سے بھی اور جب ممکن ہو قتال کے ذریعے سے بھی۔ رازی لکھتے ہیں : ’’بعض مفسرین نے فرمایا، یہاں جہاد سے مراد اللہ کا پیغام پہنچانے اور دعوت میں پوری کوشش کرنا ہے اور بعض نے فرمایا، قتال (لڑائی) کے ساتھ جہاد مراد ہے اور بعض نے فرمایا، دونوں کے ساتھ جہاد مراد ہے۔‘‘ رازی نے فرمایا : ’’پہلی تفسیر زیادہ قریب ہے، کیونکہ سورت مکی ہے اور قتال کا حکم ہجرت کے بھی کچھ دیر بعد نازل ہوا۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ زیادہ قریب بات یہ ہے کہ دعوت و قتال دونوں کے ساتھ جہاد مراد ہے، کیونکہ لفظ جہاد (پوری کوشش صرف کرنے) کا تقاضا بھی یہی ہے اور لفظ ’’کبیر‘‘ کا بھی۔ رہی یہ بات کہ یہ سورت مکی ہے، تو مکی سورتوں میں بھی قتال کا ذکر موجود ہے، اگرچہ حکمتِ الٰہی کے پیشِ نظر ہجرت سے پہلے قتال کی اجازت نہیں دی گئی، جیسا کہ سورۂ مزمل میں (جو بالاتفاق مکی ہے) فرمایا: ﴿عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى وَ اٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ﴾ [المزمل: ۲۰ ] ’’اس نے جان لیا کہ یقیناً تم میں سے کچھ بیمار ہوں گے اور کچھ دوسرے زمین میں سفر کریں گے، اللہ کا فضل تلاش کریں گے اور کچھ دوسرے اللہ کی راہ میں لڑیں گے، پس اس میں سے جو میسر ہو پڑھو۔‘‘ اور عروہ بن زبیر نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے پوچھا : ’’قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو زیادہ سے زیادہ جو ایذا دی وہ کیا تھی؟‘‘ تو انھوں نے دو دنوں کا ذکر فرمایا، جن میں سے ایک وہ دن تھا جب عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں چادر ڈال کر گلا گھونٹا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے دھکا دے کر آپ کو چھڑایا اور ایک اس سے پہلا دن کہ جب آپ طواف کر رہے تھے اور جب آپ کفارِ قریش کے پاس سے گزرتے تو وہ کوئی نہ کوئی تکلیف دہ بات کرتے، تین چکروں میں ایسا ہی ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تَسْمَعُوْنَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ! أَمَا وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ )) ’’قریشیو ! سنتے ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! میں تمھارے پاس (تمھارے) ذبح (کا پیغام) لے کر آیا ہوں۔‘‘ [ مسند أحمد :2؍218، ح : ۷۰۵۴۔ مسند أبی یعلٰی :6؍425، ح : ۷۳۳۹ ] مسند احمد اور مسند ابی یعلی ٰ دونوں کی تحقیق میں اسے حسن کہا گیا ہے ۔ ذبح کا یہ حکم جسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے، جب اس پر عمل کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کرکے دکھایا اور فرمایا: ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی يَشْهَدُوْا أَنْ لَا إِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ، وَيُقِيْمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَاءَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلاَمِ وَ حِسَابُهُمْ عَلَی اللّٰهِ )) [ بخاري، الإیمان، باب : ﴿فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ....﴾ : ۲۵، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما ] ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کا رسول ہے۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، جب وہ یہ کام کر لیں تو انھوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ کر لیے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے ۔‘‘ 3۔ جہادِ کبیر کی تفسیر دعوت و قتال دونوں کے ساتھ کرنا اس لیے بھی راجح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ((أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ )) ’’کون سا جہاد افضل ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أُهْرِيْقَ دَمُهُ وَ عُقِرَ جَوَادُهُ )) [ ابن ماجہ، الجہاد، باب القتال في سبیل اللّٰہ : ۲۷۹۴، قال الشیخ الألباني صحیح ] ’’جس کا خون بہا دیا گیا اور اس کا گھوڑا کاٹ دیا گیا۔‘‘ اور طارق ابن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جب آپ رکاب میں پاؤں رکھ چکے تھے: ((أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ )) ’’کون سا جہاد افضل ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ )) [ نسائي، البیعۃ، باب فضل من تکلم بالحق عند إمام جائر : ۴۲۱۴ ] ’’کسی ظالم بادشاہ کے پاس حق بات کہہ دینا۔‘‘ ظاہر ہے ظالم بادشاہ کے سامنے وہی شخص کلمۂ حق کہہ سکتا ہے جو اس کے سامنے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جائے گا، یہ ہر ایرے غیرے کا کام نہیں۔ اس لیے پچھلی حدیث میں اور اس میں کوئی تضاد نہیں۔ 4۔ اس مقام پر ایک روایت بیان کی جاتی ہے، جس میں مال و جان کی قربانی والے جہاد کو جہاد اصغر قرار دیا گیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ قَالُوْا وَمَا الْجِهَادُ الْأَكْبَرُ؟ قَالَ جِهَادُ الْقَلْبِ )) ’’ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف واپس پلٹ آئے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’تو وہ جہادِ اکبر کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جہاد القلب (دل کا جہاد)۔‘‘ [’’اَلْمَقُوْلُ مِنْ مَا لَيْسَ بِمَنْقُوْلٍ‘‘] کے مصنف ولید بن راشد السعیدان لکھتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر نے (تسدید القوس میں) فرمایا، یہ ابراہیم بن ابی عَبلَہ کا کلام ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس کا اصل کچھ نہیں اور یہ جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ (و اللہ اعلم)