وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا
ساور وہی تو ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پیشتر ہواؤں [٦٠] کو بشارت بناکر بھیجتا ہے اور ہم نے ہی آسمان سے صاف ستھرا [٦١] پانی اتارا ہے۔
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا....: دیکھیے سورۂ اعراف (۵۷) ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ ہے کہ وہ ہواؤں کو خوش خبری دینے والی بنا کر بھیجتا ہے کہ وہ اپنے بعد بادل آنے کی خوش خبری دیتی ہیں، اور ہواؤں کی کئی قسمیں ہیں جو کئی کاموں پر مقرر ہیں، بعض وہ جو بادلوں کو ابھارتی ہیں، بعض انھیں اٹھاتی ہیں، کچھ انھیں ہانکتی ہیں، کچھ ان سے پہلے بشارت دیتی ہیں، کچھ زمین پر جھاڑو پھیر دیتی ہیں اور کچھ بادلوں میں بار آوری کا کام کرتی ہیں، تاکہ ان سے بارش برسے۔‘‘ یعنی ہواؤں، بادلوں اوربارش کے اس سلسلے کا خالق اور مالک و مختار بھی وہی ہے۔ اس حقیقت کو مشرکینِ مکہ بھی تسلیم کرتے تھے۔ 2۔ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا: یہاں پھر غائب سے متکلم کی طرف التفات ہے۔ ’’ السَّمَآءِ ‘‘ سے مراد بادل ہے۔ ’’ طَهُوْرًا ‘‘ ’’جس کے ساتھ طہارت حاصل کی جائے‘‘ جیسا کہ ’’وَقُوْدٌ‘‘ جس کے ساتھ آگ جلائی جائے، ’’وَضُوْءٌ‘‘ جس کے ساتھ وضو کیا جائے، ’’سَحُوْرٌ‘‘ جس کے ساتھ سحری کی جائے اور ’’سَنُوْنٌ‘‘ جس کے ساتھ دانت صاف کیے جائیں۔ یعنی ہم نے بادل سے پانی اتارا جو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک ہوتا ہے اور ہر طرح کے جراثیم اور زہریلے مادوں سے بھی۔ زمین سے جو پانی بخارات کی صورت میں بادل کی صورت اختیار کرتا ہے وہ بخارات بن کر اڑنے سے پہلے نجس ہو یا زہر آلود، نمکین ہو یا کسی عنصر کے ساتھ ملا ہوا، جب بادل سے برسے گا تو ہر آمیزش اور نجاست سے پاک ہو گا اور صرف خود ہی پاک نہیں ہو گا بلکہ دوسری چیزوں کو بھی نجاست سے پاک کرنے والا ہو گا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ کسی بھی چیز کو پاک کرنے کا اصل ذریعہ پانی ہے۔