وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا
اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات کو لباس، نیند کو آرام اور دن [٥٩] کو جی اٹھنے کا وقت بنایا ہے۔
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا....: ’’ سُبَاتًا ‘‘ اور ’’ سَبْتٌ ‘‘ (ن، ض) مصدر ہیں، راحت، سکون، قطع کرنا۔ کلام کا اسلوب بطور التفات متکلم سے غائب کی طرف واپس آ گیا ہے۔ سائے اور دھوپ کے بعد رات اور دن کا ذکر فرمایا۔ جملے کے دونوں جز ’’ هُوَ ‘‘ اور ’’ الَّذِيْ ‘‘ معرفہ ہونے سے اس میں قصر افراد پیدا ہو رہا ہے، یعنی رات دن بنانے والا وہ اکیلا ہی ہے، کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں۔ جب تم بھی مانتے ہو کہ رات دن کا ایک لمحہ بنانے میں کسی کا کوئی حصہ نہیں، تو ان کے اندر موجود کسی چیز کا داتا اور دستگیر کوئی دوسرا کیسے بن گیا؟ ’’ جَعَلَ لَكُمْ‘‘ میں توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دھوپ چھاؤں اور رات دن کا یہ سلسلہ تمھارے لیے بنایا ہے، وہ ہر چیز سے غنی ہے۔ رات کو لباس بنانے کا مطلب یہ ہے کہ روشنی راحت میں خلل انداز ہو سکتی تھی، لہٰذا اس نے رات کو تاریک بنا دیا جو لباس کی طرح ہر چیز کو چھپا لیتی ہے۔ رات کی تاریکی میں کتنے ہی دینی و دنیوی فائدے ہیں، کسی غازی، کسی عابد شب بیدار، کسی علم کی لذت یا کسی اونچے مقصد کی لذت سے آشنا ہی کو اس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ البتہ ایک فائدہ ایسا ہے جس سے کوئی بھی محروم نہیں رہتا، نہ اس سے کوئی مستغنی ہو سکتا ہے اور وہ ہے نیند، جو موت کی طرح تمھاری تمام حرکت قطع کر کے تمھیں مکمل سکون کی وادی میں لے جاتی ہے اور تمھاری تھکن دور کرتی اور پورے جسم کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کر دیتی ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۶۰) اور زمر (۴۲)۔ 2۔ وَ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا : ’’ نُشُوْرًا ‘‘ میں دو مفہوم پائے جاتے ہیں، ایک یہ کہ نیند ایک طرح کی موت ہے اور دن کو بیدار ہونا قیامت کو اٹھنے کی ایک مثال ہے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر جاتے تو کہتے: ((بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَ أَحْيَا )) ’’تیرے ہی نام کے ساتھ میں مرتا ہوں اور زندہ ہوں گا۔‘‘ اور جب بیدار ہوتے تو کہتے: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ إِلَيْهِ النُّشُوْرُ )) [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : ۶۳۱۲ ] ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں موت دینے کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘ دوسرا یہ کہ رات آرام کے لیے اور دن کام کاج اور اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے ہے۔ آیت میں اللہ کی توحید کی دلیل بھی ہے اور قیامت پر اس کی قدرت کا اظہار بھی اور نعمت کی یاد دہانی بھی۔ اور دیکھیے سورۂ قصص (۷۳)۔