وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا
اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہوچکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی [٥٢] گئی تھی۔ کیا انہوں نے اس بستی کا حال نہ دیکھا ہوگا ؟ لیکن (اصل معاملہ یہ ہے کہ) یہ لوگ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔
1۔ وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ....: ’’ وَ لَقَدْ ‘‘ کا لفظ قسم کا مفہوم رکھتا ہے، یعنی قسم ہے کہ یہ لوگ شام کی طرف جاتے ہوئے قومِ لوط کی بستیوں کے پاس سے گزرتے ہیں، کیونکہ وہ مکہ سے شام کو جانے والے راستے پر تھیں۔ دیکھیے سورۂ حجر (۷۹) اور صافات (۱۳۷)۔ 2۔ الَّتِيْ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ : مراد کھنگر پتھروں کی بارش ہے۔ دیکھیے سورۂ ہود (۸۲)، حجر (۷۴)، اعراف (۸۴)، شعراء (۱۷۳) اور نمل (۵۸)۔ 3۔ اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا يَرَوْنَهَا....: ’’تو کیا وہ اسے دیکھا نہ کرتے تھے؟‘‘ یعنی یقیناً دیکھا کرتے تھے۔ تو ان کے ایمان نہ لانے کی یہ وجہ نہ تھی کہ انھوں نے ان تباہ شدہ بستیوں کے آثار نہیں دیکھے تھے، بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ کسی طرح دوبارہ زندہ ہونے کی امید نہ رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے انھیں صرف تماشائی کی حیثیت سے دیکھا، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کے قائل اور اس کے منکر کے دیکھنے میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے۔ ’’ نُشُوْرًا ‘‘ کی تنوین کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ’’بلکہ وہ کسی طرح اٹھائے جانے کی امید نہ رکھتے تھے۔‘‘