الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلًا
ایسے لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف [٤٥] لائے جائیں گے، ان کا ٹھکانا بہت برا ہے اور یہی سب سے زیادہ گمراہ ہیں۔
1۔ اَلَّذِيْنَ يُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَ....: اس آیت کو پچھلی آیات کے ساتھ ملائیں تو ان الفاظ کا تقاضا ہے کہ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے، جو یہ ہے کہ ’’نبی اور قرآن پر اعتراض کرنے والے یہ لوگ اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے‘‘ اور وہ لوگ جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے وہی ٹھکانے میں نہایت برے اور راستے کے اعتبار سے بہت زیادہ گمراہ ہیں۔ 2۔ اُولٰٓىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِيْلًا : ’’ شَرٌّ ‘‘ اصل میں ’’أَشَرُّ ‘‘ ہے، جیسے ’’خَيْرٌ‘‘ اصل میں ’’ أَخْيَرُ‘‘ ہے، دونوں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، ’’ اَضَلُّ ‘‘ بھی اسم تفضیل ہے، مگر یہاں تفضیل مراد نہیں، نہ یہ معنی ہے کہ یہ لوگ اہلِ جنت سے زیادہ برے ہیں۔ یہاں ’’ شَرٌّ ‘‘ اور ’’ اَضَلُّ ‘‘ کا لفظ کسی کے مقابلے میں زیادہ برے یا زیادہ گمراہ کے معنی میں نہیں بلکہ صرف مبالغے کے لیے ہے، یعنی نہایت برے اور بہت زیادہ گمراہ ہیں، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’وہی ٹھکانے میں نہایت برے اور راستے کے اعتبار سے بہت زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘ ٹھکانے سے مراد جہنم ہے اور راستے سے مراد کفر و شرک کا راستہ ہے، جو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ چند آیات پہلے اہلِ جنت کا وصف بیان ہوا ہے: ﴿اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِيْلًا﴾ [الفرقان : ۲۴ ] اس کے مقابلے میں یہاں اہلِ جہنم کا وصف ’’ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِيْلًا ‘‘ بیان ہوا ہے۔ 3۔ اَلَّذِيْنَ يُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ....: دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۷) اور طٰہٰ (۱۲۵) چہروں کے بل اکٹھے کیے جانے کی ایک تفسیر یہ ہے کہ انھیں چہروں کے بل گھسیٹتے ہوئے میدانِ محشر کی طرف لے جایا جائے گا، جیسا کہ جہنم میں بھی ان کے ساتھ یہی معاملہ ہو گا، فرمایا: ﴿يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ﴾ [القمر : ۴۸ ] ’’جس دن وہ آگ میں اپنے چہروں پر گھسیٹے جائیں گے، چکھو آگ کا چھونا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ﴾ [النمل : ۹۰ ] ’’اور جوبرائی لے کر آئے گا تو ان کے چہرے آگ میں اوندھے ڈالے جائیں گے۔‘‘ دوسری تفسیر وہ ہے جو انس رضی اللہ عنہ نے روایت فرمائی ہے کہ ایک آدمی نے کہا : ’’یا رسول اللہ! کافر کو قیامت کے دن چہرے کے بل اکٹھا کیا جائے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَلَيْسَ الَّذِيْ أَمْشَاهُ عَلَی الرِّجْلَيْنِ فِي الدُّنْيَا قَادِرًا عَلٰی أَنْ يُّمْشِيَهُ عَلٰی وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ: ﴿الذین یحشرون علی....﴾ : ۴۷۶۰ ] ’’کیا جس نے اسے ٹانگوں پر چلایا ہے وہ اس پر قادر نہیں کہ اسے قیامت کے دن اس کے چہرے پر چلائے؟‘‘ اکثر مفسرین نے یہی تفسیر کی ہے۔