لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا
اس نے تو میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے بہکا دیا اور شیطان تو انسان کو مصیبت پڑنے پر چھوڑ جانے [٣٩] والا ہے۔
1۔ لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِيْ : اس میں اس تمنا کی وجہ بیان کی ہے کہ کاش! میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ وہ یہ کہ میرے پاس (الذِّكْرِ) کامل نصیحت آئی، مگر اس دوست نے مجھے اس کو قبول کرنے سے بے راہ کر دیا۔ ’’ الذِّكْرِ ‘‘ سے مراد کے لیے دیکھیے سورۂ حجر (۶، ۹)۔ 2۔ وَ كَانَ الشَّيْطٰنُ....: ’’الشَّيْطٰنُ‘‘ ’’شَطْنٌ‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی دوری بھی ہے اور خباثت بھی۔ شیطان ہر وہ خبیث شخص ہے جو حق سے دور ہو، خواہ انسان ہو یا جن، کیونکہ شیطان دونوں ہی میں پائے جاتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۱۲) ’’خَذُوْلًا ‘‘ چھوڑ جانے والا، ’’ كَانَ ‘‘ کی وجہ سے ’’ہمیشہ چھوڑ جانے والا‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی شیطان آدمی کو پہلے برے کام کی ترغیب دیتا ہے، جب آدمی وہ کام کر لیتا ہے اور مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۲۱، ۲۲) رہے دوست، تو قیامت کے دن متقی دوستوں کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۶۷)۔