سورة الفرقان - آیت 19

فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

گویا (اے کافرو)! جو تم آج [٢٣] کہتے ہو، اس دن تمہارے معبود تمہیں جھٹلا دیں گے۔ پھر نہ تم (عذاب کو) ٹال سکو گے اور نہ تمہیں کہیں سے مدد مل سکے گی۔ اور جو بھی تم سے ظلم [٢٤] کر رہا ہے اسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ : یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو وہ مشرکین سے مخاطب ہو کر فرمائے گا کہ تم نے جنھیں معبود بنا رکھا تھا انھوں نے تو تمھیں تمھاری بات میں جھٹلا دیا اور تم سے بری ہو گئے۔ قیامت کے دن تمام خود ساختہ معبودوں کا اپنے پوجنے والوں سے بری ہونا اور ان کا دشمن بن جانا قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے، دیکھیے سورۂ یونس (۲۸)، نحل (۸۶)، مریم (۸۲)، فاطر (۱۳، ۱۴) اور احقاف (۶)۔ فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ۠ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًا: یعنی جن سے تم مدد کی توقع رکھتے تھے وہ تمھارے دشمن بن گئے، تو اب تم عذاب سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، نہ اسے اپنے آپ سے کسی سفارش یا فدیے سے ہٹا سکتے ہو اور نہ ہی خود یا کوئی اور تمھاری مدد کو آ سکتا ہے۔ وَ مَنْ يَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيْرًا : ظلم سے مراد شرک ہے، دیکھیے سورۂ انعام کی آیت (۸۲): ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ﴾ کی تفسیر اور عذابِ کبیر سے مراد جہنم ہے۔ مطلب یہ کہ تم سب نے ظلم کا ارتکاب کیا، اس لیے ہم تمھیں جہنم کا عذاب چکھائیں گے، یعنی جہنم میں پھینکنے کی وجہ بیان فرمائی ہے۔