وَقَالُوا مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا
نیز کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں [١٠] میں چلتا پھرتا ہے۔ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور لوگوں کو ڈرایا [١١] کرتا
1۔ وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ....: یہ قرآن پر طعن کے بعد رسول پر طعن ہے اور بہت گھٹیا طعن ہے، کفار کا یہ جاہلانہ طعن قرآن میں متعدد مقامات پر دہرایا گیا ہے، ان کے خیال میں کوئی بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ (دیکھیے بنی اسرائیل : ۹۴، ۹۵) اس لیے انھوں نے کہا، یہ رسول (جو ہماری طرف بھیجے جانے کا دعویٰ کرتا ہے) اسے کیا ہے کہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، ہم میں اور اس میں فرق کیا ہے؟ اسے تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا، جو بشری ضرورتوں سے پاک ہوتا اور اگر انسان ہوتے ہوئے اسے یہ مقام مل گیا تھا، تو اس کی شان کم از کم اتنی تو ہوتی جتنی دنیا کے کسی بادشاہ کی ہوتی ہے۔ (دیکھیے زخرف : ۵۳) اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب آگے آیت (۲۰) میں دیا ہے۔ 2۔ لَوْ لَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ....: یعنی اگر انسان ہی کو رسول ہونا تھا تو اس کی طرف آسمان سے کوئی فرشتہ اتارا جاتا، جو سب کو نظر آتا، ہر وقت اس کے ساتھ رہتا اور لوگوں کو بتاتا کہ یہ اللہ کا رسول ہے، پھر جو لوگ اس پر ایمان نہ لاتے انھیں اللہ کے عذاب کی دھمکی دیتا۔