قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
آپ ان سے کہئے کہ قرآن کو اس ذات نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کے بھید [٩] جانتا ہے اور وہ یقیناً بہت بخشنے والا، رحم والا ہے۔
1۔ قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں فرمایا کہ قرآن کو تو دیکھو اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے ؟ یقیناً نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل سچی اور صحیح ہے، اس لیے کہ اس کو اتارنے والی وہ ذات ہے جس کے پاس زمین و آسمان کی ظاہر باتوں ہی کا نہیں تمام پوشیدہ باتوں کا بھی پورا علم ہے۔ وہ ماضی کو جانتا ہے، حال اور مستقبل کو بھی۔ اس لیے اس کی نازل کردہ کتاب میں گزشتہ زمانوں کی باتیں ہیں، حال کی بھی اور آئندہ زمانے کی بھی اور ان میں سے کوئی بات غلط ثابت ہوئی ہے نہ ہو گی۔ جو شخص آسمانوں اور زمین کے تمام راز نہ جانتا ہو وہ اس جیسی کتاب تو کجا اس جیسی ایک سورت بھی نہیں بنا سکتا، اگر تمھیں اصرار ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ بندے کی تصنیف ہے، تو تم بھی مقابلے میں کوئی سورت لے آؤ۔ 2۔ اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جو سب چیزوں کا علم رکھتا ہو وہ ہر چیز پر قادر بھی ہوتا ہے، پھر وہ ان لوگوں کے انکار، تکبر اور استہزا پر فوری گرفت کیوں نہیں کرتا۔ فرمایا وجہ یہ ہے کہ ’’ اِنَّهٗ كَانَ ‘‘ یعنی وہ ہمیشہ سے بندوں کے گناہوں پر بہت پردہ ڈالنے والا ہے، دائمی رحم والا ہے، وہ چاہتا تو اس گستاخی پر انھیں سخت سزا دیتا، مگر وہ غفور و رحیم ہے، اس لیے تم سے درگزر کر رہا ہے۔ اس میں انھیں توبہ و انابت اور اسلام و ہدایت کی طرف پلٹ آنے کی ترغیب ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی (آسمان و زمین کی چھپی ہوئی باتیں جاننے والے نے) اپنی بخشش اور مہربانی سے ہی اسے اتارا ہے۔‘‘ (موضح) یعنی اس کی مغفرت و رحمت یہ قرآن اتارنے کا باعث ہے۔