وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی) چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے [٤٠٠] لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ....: جاہلیت میں قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں سود در سود سے اصل رقم میں اضافہ ہوتا جاتا، جس سے تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی، آج کل بھی یہی حال ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگدست ہو تو(سود تو درکنار) آسانی تک اسے مہلت دو اور اگر قرض بالکل معاف کر دو تو زیادہ اچھا ہے۔ احادیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے، بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی تو اسے ہر دن اس قرضے کے برابر صدقے کا ثواب ملے گا۔‘‘ پھر میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا:’’جس نے کسی تنگدست شخص کو مہلت دی تو اسے ہر دن اس قرض سے دگنا صدقے کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ میں نے عرض کی:’’اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی تو اسے ہر دن اس قرض کے برابر صدقے کا ثواب ملے گا اور پھر میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا کہ جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی تو اسے ہر دن اس قرض سے دگنا صدقے کے برابر ثواب ملے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قرض چکانے کی مدت تک اسے قرض کے برابر صدقے کا ثواب ملے گا اور اگر قرض چکانے کی مدت کے آنے پر مہلت دے تو اسے قرض سے دگنا صدقے کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ [مسند أحمد:5؍360، ح:۲۳۱۱۰۔ الصحیحۃ:۸۶ ] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے اپنے قرض دار کو مہلت دی یا قرض معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) اپنا سایہ عطا فرمائے گا۔‘‘ [مسلم، الزہد، باب حدیث جابر الطویل....: ۳۰۰۶، عن عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ ]