وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
اور جو کافر ہیں ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل میدان میں کوئی سراب [] ہو جسے پیاسا پانی سمجھ رہا ہو۔ حتی کہ جب وہ اس سراب کے قریب آتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں پاتا۔ بلکہ اس نے اللہ کو وہاں موجود پایا جس نے اس کا حساب چکادیا اور اللہ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی۔
وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ....: ’’سَرَابٌ‘‘ چٹیل میدان یا ریگستانی صحرا میں دوپہر کے وقت سورج کی روشنی کی وجہ سے دور سے ایسا نظر آتا ہے جیسے پانی لہریں مار رہا ہو، اسے ’’سراب‘‘ کہتے ہیں، جو محض نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔ ’’قِيْعَةٌ‘‘ اور ’’ قَاعٍ‘‘ دونوں کا معنی چٹیل میدان ہے۔ ’’الظَّمْاٰنُ‘‘ ’’فَعْلَانُ‘‘کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے، معنی ہے سخت پیاسا۔ اس سے پہلے اہل ایمان کے دل میں ہدایت کے نور کی مثال بیان فرمائی، اب کفار کے اعمال کے لیے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں منافقین کے لیے آگ اور پانی کی مثال بیان فرمائی اور سورۂ رعد میں اس ہدایت اور علم کی جو دلوں میں جاگزین ہو جاتے ہیں، دو مثالیں بیان فرمائیں، ایک پانی کی اور دوسری آگ کی۔ یہاں کفار کے اعمال کی دو مثالیں لفظ ’’ اَوْ ‘‘ کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ بعض اہلِ علم نے سراب والی مثال کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ کافر دو قسم کے ہیں، ایک وہ جو اپنے گمان کے مطابق کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کام آئیں گے، جیسا کہ بیت اللہ کی خدمت، حاجیوں کو پانی پلانا، صدقہ و خیرات وغیرہ کرنا، حالانکہ ان کا کوئی بھی کام، اگرچہ وہ بظاہر اچھا ہی ہو، پھر بھی کفر کی شامت سے اللہ کے ہاں قبول و معتبر نہیں۔ ان لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا﴾ [الأحقاف:۲۰] ’’تم اپنی نیکیاں اپنی دنیا کی زندگی میں لے جا چکے اور تم ان سے فائدہ اٹھا چکے۔‘‘ آخرت میں ان کے اعمال ’’ هَبَاءً مَّنْثُوْرًا ‘‘ (بکھرا ہوا غبار) کر دیے جائیں گے۔ (دیکھیے فرقان : ۲۳) دوسری جگہ ان کے اعمال کی مثال اس راکھ سے بیان فرمائی جس پر آندھی والے دن میں سخت ہوا چلی ہو۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۱۸)۔ زیر تفسیر آیت میں فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ان کے اعمال کی مثال اس طرح ہے جیسے دوپہر کے وقت ایک سخت پیاسے شخص کو دور سے پانی دکھائی دے، جو دراصل سراب ہو، وہ سخت پیاس کی وجہ سے اسے پانی سمجھ کر وہاں پہنچے، تو وہاں پانی وغیرہ کچھ نہ ہو، بلکہ وہاں اس سے حساب کا تقاضا کرنے والے ہوں جو اسے پکڑ کر اپنے حساب میں باندھ لیں۔ اسی طرح کافر اپنے گمان میں اپنے اچھے کاموں کو قیامت کے دن فائدہ پہنچانے والے گمان کرتا ہے، مگر قیامت کے دن وہ سراب کی طرح بے حقیقت ہو جائیں گے اور جزا ملنے کے بجائے اسے اللہ تعالیٰ سے سابقہ پیش آئے گا، جو اس سے اپنا حساب پورا لے گا۔ ’’ وَ اللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ‘‘ یعنی اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے، کیونکہ دوسرے لوگوں کو ہر چیز کا علم نہیں، نہ ان میں سے کوئی ایک وقت میں ایک سے زیادہ کا حساب لے سکتا ہے، اس لیے ان کے حساب میں تاخیر ہو جاتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کو پہلی پچھلی ہر چیز کا مکمل علم ہے، وہ کسی لکھنے پڑھنے کا محتاج نہیں اور وہ ایک لمحے میں ساری کائنات کا حساب بھی لے سکتا ہے، اس لیے وہ ’’ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ‘‘ ہے۔ اسے حساب میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ دوسری قسم کے کافر وہ ہیں جنھیں آخرت کی فکر ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے وہ کوئی اچھا کام کریں، وہ سر سے پاؤں تک دنیا کی لذتوں میں غرق ہیں اور کفر و ضلالت، ظلم و جہل، خواہش پرستی اور اللہ کی نافرمانی میں غوطے کھا رہے ہیں۔ ان کی مثال آگے بیان فرمائی کہ ان کے پاس روشنی کی اتنی چمک بھی نہیں جتنی سراب پر دھوکا کھانے والے کو نظر آتی تھی۔ یہ لوگ خالص اندھیروں اور تہ بہ تہ ظلمات میں بندہیں، روشنی کی کوئی شعاع کسی طرف سے ان تک نہیں پہنچتی۔