الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لئے، اور خبیث مرد، خبیث عورتوں کے لئے ہیں۔ اور پاکیزہ [٣١] عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔ ان کا دامن ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (تہمت لگانے والے) بکتے ہیں، ان کے لئے بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔
1۔ اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ....: اس آیت میں یہ نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیث (گندے) مردوں کا نبھاؤ خبیث عورتوں سے اور پاکیزہ مردوں کا نبھاؤ پاکیزہ عورتوں ہی سے ہو سکتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک مرد خود تو بڑا پاکیزہ ہے مگر وہ ایک خبیث عورت سے برسوں نبھاؤ کرتا چلا جائے۔ مقصود عائشہ رضی اللہ عنھا کی پاکیزگی کا بیان ہے کہ ان میں خباثت کا ادنیٰ شائبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ازل سے ابد تک پاکیزہ ہستیوں کے سردار تھے، ان کے ساتھ نہایت محبت و اطمینان سے برسوں نبھاؤ کرتے چلے جاتے؟ بعض مفسرین نے ’’ اَلْخَبِيْثٰتُ ‘‘ سے مراد گندے اقوال و افعال اور ’’ الطَّيِّبٰتُ ‘‘ سے مراد پاکیزہ اقوال و افعال لیے ہیں، یعنی کوئی آدمی جیسا خود ہوتا ہے ویسے ہی وہ اعمال کرتا ہے اور ویسے ہی اقوال زبان پر لاتا ہے۔ اب چونکہ عائشہ رضی اللہ عنھا پاک تھیں، ان کی سیرت اور ان کے اقوال و افعال بھی پاک تھے اور یہ منافق خود گندے تھے، اس لیے ان سے ایسے ہی گندے اقوال و افعال کی توقع تھی۔ 2۔ اُولٰٓىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ: یعنی طیّب مرد اور طیّب عورتیں ان باتوں سے صاف بری کیے ہوئے ہیں جو خبیث مرد اور خبیث عورتیں کہتے ہیں۔ ’’ مُبَرَّءُوْنَ ‘‘ اسم مفعول کا صیغہ ہے ’’بری کیے ہوئے۔‘‘ اس میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کی واشگاف الفاظ میں براء ت کا ذکر ہے ۔ یعنی اہل ایمان میں سے جو یہ سنتا ہے وہ ’’ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ ‘‘ کہہ کر انھیں پاک قرار دیتا ہے اور رب تعالیٰ بھی ’’ اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ‘‘ کے ساتھ ان کی براء ت کا اعلان فرماتے ہیں۔ ’’ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ‘‘ یعنی بہتان تراشوں کی صرف منہ کی باتیں ہیں، ان کی حقیقت کچھ نہیں۔ 3۔ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِيْمٌ : ’’ مَغْفِرَةٌ ‘‘ پر تنوینِ تعظیم کی وجہ سے ’’بڑی بخشش‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی خبیث لوگوں کے برا کہنے سے وہ برے نہیں ہو جاتے، بلکہ ان کی تہمتوں کی وجہ سے انھیں جو رنج پہنچتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتے ہیں تو یہ چیز ان کی خطاؤں اور لغزشوں کی بخشش کا ذریعہ بنتی ہے اور مفسد لوگ جس قدر انھیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں اسی قدر انھیں عزت کی روزی ملتی ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عائشہ، ان کے والدین اور صفوان رضی اللہ عنھم سب کے لیے جنت کی بشارت ہے، جو حقیقی رزق کریم ہے، کیونکہ اس بہتان سے ان سب کی عزت و آبرو پر حملہ ہوا اور سب کو نہایت رنج پہنچا۔