يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ
اس دن اللہ تعالیٰ انھیں وہ بدلہ دے گا جس کے [٣٠] وہ مستحق ہیں اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے، سچ کو سچ کر دکھانے والا ہے۔
1۔ يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْهِمُ اللّٰهُ دِيْنَهُمُ الْحَقَّ....: ’’دِيْنَهُمْ‘‘سے مراد جزا ہے، کیونکہ وہی پوری دی جائے گی۔ دوسری جگہ فرمایا: ﴿ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰى﴾ [النجم : ۴۱ ] ’’پھر اسے اس کا بدلا دیا جائے گا، پورا بدلا۔‘‘ 2۔ وَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ : اللہ تعالیٰ کی صفت ’’ الْحَقُّ ‘‘ کے دو معنی ہیں، ایک معنی ’’ثابت‘‘ ہے، کیونکہ اس کی ذات ہمیشہ سے ہے، نہ اس پر پہلے عدم ہے اور نہ اس پر کبھی فنا ہے، دوسری کسی چیز میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے۔ لفظ ’’ اللّٰهَ ‘‘ اور اس کی خبر ’’ الْحَقُّ ‘‘ پر الف لام آنے سے اور ان دونوں کے درمیان ’’ هُوَ ‘‘ لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، یعنی حق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، باقی سب باطل ہیں، کیونکہ حق کے مقابلے میں باطل ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ كَلِمَةُ لَبِيْدٍ : أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللّٰهَ بَاطِلُ )) [بخاري، مناقب الأنصار، باب أیام الجاھلیۃ :۳۸۴۱ ] ’’سب سے سچی بات جو شاعر نے کہی ہے، وہ لبید کی بات ہے کہ سن لو! اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔‘‘ ’’حق‘‘ کا دوسرا معنی عدل و انصاف ہے، مراد ’’ذُو الْحَقِّ أَيْ ذُو الْعَدْلِ‘‘ ہے، یعنی عدل و انصاف والا ہے، جیسے ’’زَيْدٌ عَدْلٌ‘‘ بول کر مراد ’’ذُوالْعَدْلِ‘‘ لیتے ہیں۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بہتان لگانے والوں کو ان کا صحیح بدلا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو حق فیصلہ کرنے والا ہے، سچ کو سچ ظاہر کرنے والا ہے۔ کیونکہ دوسرے حاکم حق فیصلہ کریں بھی تو اس میں خطا اور کوتاہی کا امکان رہتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسی ذات ہے جس کا ہر فیصلہ حق ہے۔ 3۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’’ اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ ....‘‘ سے مراد کفار و منافقین ہی ہیں، کیونکہ مومن کو تو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے ’’ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ ‘‘ ہونے کا علم ہے، اس لیے اگر اس سے بہتان کی غلطی سرزد ہو جائے تو وہ اللہ کے خوف سے توبہ کر لیتا ہے، جبکہ کافر اور منافق اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے بہتان باندھنے پر جمے رہتے ہیں، انھیں قیامت کو اللہ تعالیٰ کے ’’ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ ‘‘ ہونے کا علم ہو گا۔