يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
جس دن ایسے مجرموں کی اپنی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے کرتوتوں سے متعلق ان کے خلاف گواہی دیں گے۔
1۔ يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ....: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ یٰسٓ (۶۵) اور سورۂ حٰم السجدہ (۱۹ تا ۲۱) یعنی ان کے یہ اعضا ان کے خلاف تہمت لگانے اور دوسرے برے اعمال کی گواہی دیں گے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((كُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَضَحِكَ فَقَالَ هَلْ تَدْرُوْنَ مِمَّا أَضْحَكُ؟ قَالَ قُلْنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، قَالَ مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ، يَقُوْلُ يَا رَبِّ! أَلَمْ تُجِرْنِيْ مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ يَقُوْلُ بَلٰی، قَالَ فَيَقُوْلُ فَإِنِّيْ لَا أُجِيْزُ عَلٰی نَفْسِيْ إِلَّا شَاهِدًا مِنِّيْ، قَالَ فَيَقُوْلُ كَفٰی بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيْدًا، وَ بِالْكِرَامِ الْكَاتِبِيْنَ شُهُوْدًا، قَالَ : فَيُخْتَمُ عَلٰی فِيْهِ، فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِيْ، قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ، قَالَ ثُمَّ يُخَلّٰی بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الْكَلَامِ، قَالَ فَيَقُوْلُ بُعْدًا لَكُنَّ وَ سُحْقًا، فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ)) [مسلم، الزھد، باب الدنیا سجن للمؤمن....: ۲۹۶۹ ] ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا : ’’کیا تم جانتے ہو میں کس بات پر ہنسا ہوں؟‘‘ ہم نے کہا : ’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘‘ فرمایا : ’’بندے کی اپنے رب کے ساتھ گفتگو پر، وہ کہے گا : ’’اے میرے رب! کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟‘‘ اللہ فرمائے گا : ’’کیوں نہیں!‘‘ تو وہ کہے گا : ’’پھر میں اپنی ذات پر اپنے سوا کسی گواہ کو نہیں مانتا۔‘‘ اللہ فرمائے گا : ’’آج تجھ پر تو خود ہی کافی گواہ ہے اور کراماً کاتبین گواہ کافی ہیں۔‘‘ چنانچہ اس کے منہ پر مہر کر دی جائے گی اور اس کے اعضا سے کہا جائے گا، بولو ! چنانچہ وہ بول کر اس کے اعمال بتائیں گے۔ پھر اسے بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے اعضا سے کہے گا : ’’تمھارے لیے دوری اور ہلاکت ہو، میں تمھاری طرف ہی سے تو دفاع کر رہا تھا۔‘‘ 2۔ زبان اگرچہ دنیا میں بھی بولتی ہے مگر یہاں بندے کی مرضی کے مطابق بولتی ہے، کیونکہ اسے اللہ کا حکم یہی ہے، وہاں اللہ کی مرضی کے مطابق اصل حقیقت کے مطابق بولے گی، کیونکہ اسے یہی حکم ہو گا۔ 3۔ اگرچہ جسم کے اور اعضا بھی بولیں گے، جیسا کہ سورۂ حٰم السجدہ (۲۰، ۲۱) میں چمڑوں کے بولنے کا ذکر ہے، تاہم یہاں زبان، ہاتھ اور پاؤں کا خاص طور پر ذکر اس لیے فرمایا کہ ان اعضا کا تہمت تراشی میں زیادہ دخل ہے، زبان کی بات، ہاتھوں کے اشارے اور پاؤں کی دوڑ دھوپ تہمت کی تکمیل کرتی ہے۔ 4۔ زبان گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جس رب کے حکم سے اس میں کلام کی قوت پیدا ہوئی ہے اسی کے حکم سے جسم کے ہر حصے میں یہ قوت پیدا ہو جائے گی۔ اس لیے ہاتھ، پاؤں اور چمڑوں کے کلام پر تعجب نہیں ہونا چاہیے، فرمایا: ﴿اِنَّمَا اَمْرُهٗ اِذَا اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ﴾ [یٰسٓ : ۸۲ ] ’’اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ آج کل پلاسٹک کی سی ڈی اور کیسٹ سے آواز نکلتی ہے اور کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔