وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم میں سے آسودہ حال لوگوں کو یہ قسم نہ کھانا چاہئے کہ وہ قرابت داروں،[٢٧] مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ (صدقہ وغیرہ) نہ دیں گے۔ انھیں چاہئے کہ وہ ان کو معاف کردیں اور ان سے درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
1۔ وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ....: ’’ وَ لَا يَاْتَلِ ‘‘ ’’أَلِيَّةٌ‘‘ (بروزن فَعِيْلَةٌ، بمعنی قسم) میں سے باب افتعال ’’اِئْتَلٰي يَأْتَلِيْ‘‘ میں سے نہی غائب ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت (۲۲۶): ﴿لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىِٕهِمْ ﴾ میں ’’يُؤْلُوْنَ ‘‘ باب افعال میں سے ہے۔ سورۂ نور کی آیت (۱۱) میں صحیح بخاری کی حدیث (۴۷۵۰) گزر چکی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان لگانے والوں میں مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے)، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قرابت اور ان کے فقر کی وجہ سے ان کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، جب مسطح نے یہ بات کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ وظیفہ بند کر دیا، لیکن جب یہ آیت اتری اور اس میں یہ الفاظ آئے: ﴿اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ﴾ ’’کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے؟‘‘ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا، کیونکہ نہیں، میں تو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔ چنانچہ انھوں نے وہ وظیفہ دوبارہ جاری کر دیا اور کہا، میں اس میں کبھی کمی نہیں کروں گا۔ 2۔ پچھلی آیت میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے تو اگر اہلِ افک اس گناہ میں مبتلا ہوئے ہیں اور تم اس سے محفوظ رہے ہو تو اس میں تمھارا کچھ کمال نہیں، یہ محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے، اس لیے جب بہتان لگانے والے تائب ہو چکے، انھیں اس کی سزا بھی مل چکی تو ان کی غلطی ہی پر نظر نہ رکھو، بلکہ ان سے حُسن سلوک کے اسباب پر بھی نگاہ رکھو، جن میں سے ہر سبب کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمھیں برتری اور وسعت دی ہے اس میں سے انھیں بھی دیتے رہو۔ ان حُسن سلوک کے اسباب میں سے ایک سبب قرابت دار ہونا ہے، دوسرا مسکین اور تیسرا مہاجر فی سبیل اللہ ہونا ہے۔ تینوں سبب جمع ہیں تو ان کا حق انھیں بالاولیٰ دینا چاہیے۔ 3۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرتد ہونے کے سوا دوسرے گناہوں سے کسی شخص کے اعمال صالحہ بالکل ختم نہیں ہو جاتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بہتان لگانے کے باوجود اہل افک میں سے مہاجرین کی ہجرت کی قدر افزائی فرمائی ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ۔ 4۔ وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا:’’ وَ لْيَعْفُوْا ‘‘ ’’عَفَا يَعْفُوْ‘‘ کا معنی مٹانا ہے، کہا جاتا ہے : ’’عَفَتِ الرِّيْحُ الْأَثَرَ‘‘ ’’ہوا نے قدموں کا نشان مٹا دیا۔‘‘ یعنی ان کی لغزش کا خیال دل سے مٹا دیں اور اس پر پردہ ڈال دیں۔ ’’ وَ لْيَصْفَحُوْا ‘‘ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ ’’صَفْحَةُ الْعُنُقِ‘‘ (گردن کا کنارہ) سے مشتق ہے، یعنی ان کے برے سلوک سے اس طرح درگزر کرو جیسے تم نے ان سے گردن کا کنارا پھیر لیا ہے۔ عفو و درگزر کا یہ حکم سورۂ آل عمران (۱۳۴)، نساء (۱۴۹)، حجر (۸۵)، شوریٰ (۴۳) اور دیگر کئی آیات میں آیا ہے۔ (اضواء البیان) 5۔ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ: اس کی شان نزول اوپر بیان ہو چکی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ گار مسلم کو معاف کرنا اور اس سے درگزر کرنا گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔ تم بخشو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں بخشے گا، تم درگزر کر وگے تو اللہ تعالیٰ تم سے درگزر فرمائے گا، جیسا عمل کرو گے ویسی جزا پاؤ گے۔ 6۔ یہ آیت دلیل ہے کہ نیکی نہ کرنے کی قسم کھانا جائز نہیں، ایسی قسم کا کفارہ دے کر وہ نیکی کر لینی چاہیے۔ اسی طرح اگر قسم کا پورا نہ کرنا بہتر ہو تو اس کا بھی کفارہ دے کر بہتر کام کرنا چاہیے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ حَلَفَ عَلٰی يَمِيْنٍ فَرَأَی غَيْرَهَا خَيْرًا مِّنْهَا فَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَّمِيْنِهِ وَلْيَفْعَلْ )) [ ترمذي، النذور والأیمان، باب ما جاء في الکفارۃ قبل الحنث : ۱۵۳۰، و قال الألباني صحیح ]’’جو شخص کسی کام پر قسم کھائے، پھر اس کے علاوہ کو بہتر سمجھے تو اسے چاہیے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے دے اور (بہتر کام) کر لے۔‘‘