سورة البقرة - آیت 275

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(ان لوگوں کے برعکس) جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ) ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔[٣٩٢] حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ [٣٩٣] اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھاچکا سو کھاچکا،[٣٩٤] اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا....: یعنی سود خور قیامت کے دن مخبوط الحواس اور پاگل ہو کر اٹھیں گے۔ دنیا میں بھی بے پناہ حرص کی وجہ سے ان کی یہی حالت ہوتی ہے۔ ”الرِّبٰوا“ کا لفظی معنی بڑھنا، زیادہ ہونا ہے، جیسے فرمایا:﴿فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ﴾ [الحج:۵ ] ’’پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے۔‘‘ شریعت کی اصطلاح میں قرض دے کر اصل مال سے جو زیادہ لیاجاتا ہے اسے ربا کہتے ہیں۔ (راغب) یعنی کسی قرض پر بغیر کسی مالی معاوضہ کے محض مہلت بڑھا دینے کی بنا پر زیادہ حاصل کیا جائے۔ (ابن العربی:۱؍۲۹۰) موجودہ بینکنگ کا نظام بھی واضح سود پر مبنی ہے۔ سیونگ اکاؤنٹ اور پی ایل ایس تو واضح سود ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ میں اگرچہ سود نہیں دیا جاتا مگر بنک وہ رقم آگے سود پر چلاتا ہے، آج کل اسلامی بینکنگ کا بہت شور ہے مگر علماء نے، جن میں حنفی علماء بھی شامل ہیں، اسے سودی حیلہ پر مبنی قرار دیا ہے۔ بیمہ (انشورنس) بھی سود اور جوئے کا مرکب ہے۔ اسی طرح انعامی بانڈ بھی سود اور جوئے کا مرکب ہے۔ سود کی ایک صورت نقد اور ادھار کی قیمتوں کا فرق ہے، قسطوں کا کاروبار اسی طرح چل رہا ہے، حالانکہ یہ رقم سود ہے، مثلاً ایک شخص کہے کہ میں تمہیں ایک ہزار روپے ادھار قرض دیتا ہوں مگر میں تم سے گیارہ سو روپے لوں گا، اس کے سود ہونے میں کیا شبہ ہے۔ اسی طرح ایک چیز جس کی قیمت سب جانتے ہیں کہ ایک ہزار ہے، بیچنے والے اور لینے والے کو بھی علم ہے، پھر وہ اسے قسطوں پر گیارہ سو میں دیتا ہے، تو یہ کیوں سود نہیں؟ سود خواہ کوئی ذاتی ضرورت کے لیے لے یا تجارت کے لیے جب اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا تو ہر طرح کا سود حرام ہے۔ اگر کوئی بچنا چاہے تو اسے واضح سود کے ساتھ سود کے حیلے اور سود کے شک والے معاملات سے بھی بچنا ہو گا۔ مزید دیکھیے آل عمران (۱۳۰)۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا:یعنی ان کی یہ حالت اس لیے ہو گی کہ انھوں نے بیع، یعنی فروخت کو بھی سود جیسا قرار دیا اور سود کو اتنا حلال قرار دیا کہ بیع کی حلت کا سبب بھی سود کے ساتھ مشابہت کو قرار دیا، بقول زمخشری:’’انھوں نے بیع کو سود کے مشابہ سود کی حلت میں مبالغہ کے لیے قرار دیا۔‘‘ ان ظالموں کے نزدیک بیع اور سودمیں کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں میں نفع آتا ہے۔ آج کل کفار کی تہذیب سے متاثر نیا روشن خیال تاریک دل طبقہ بھی سود کو ایک کاروبار سمجھتا ہے، حالانکہ دونوں میں واضح کئی فرق ہیں جن میں سے بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، دونوں برابر کیسے ہو گئے؟ علاوہ ازیں ایک فرق یہ ہے کہ تجارت میں نفع بھی ہوتا ہے نقصان بھی جب کہ سودی قرض لینے والے کو نفع ہو یا نقصان سود خور نے (خواہ ایک شخص ہو یا بنک) ہر حال میں پوری رقم مع سود وصول کرنی ہے جو آئندہ بڑھتی ہی جائے گی۔ اس لیے سود ظلم اور مفت خوری کی بدترین شکل ہے۔ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ:شیطان کا آدمی کو نقصان پہنچانا، خصوصاً اس کے دماغ پر حملہ آور ہونا کئی آیات و احادیث سے ثابت ہے، مثلاً چوکے مارنا اور غصہ دلانا، فرمایا:﴿مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ﴾ [المؤمنون:۹۷ ] ’’شیطانوں کی اکساہٹوں سے۔‘‘ بہکا کر حیران چھوڑ دینا، فرمایا:﴿كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيٰطِيْنُ فِي الْاَرْضِ حَيْرَانَ ﴾ [الأنعام:۷۱ ] ’’اس شخص کی طرح جسے شیطانوں نے زمین میں بہکا دیا، اس حال میں کہ حیران ہے۔‘‘ تکلیف یا بیماری میں مبتلا کر دینا، فرمایا:﴿ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ﴾ [صٓ:۴۱ ] ’’بے شک شیطان نے مجھے بڑا دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔‘‘ بھلا دینا، فرمایا:﴿ وَ مَاۤ اَنْسٰىنِيْهُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ ﴾ [الکہف:۶۳ ] ’’اور مجھے وہ (بات) نہیں بھلائی مگر شیطان نے کہ میں اس کا ذکر کروں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’شیطان انسان میں خون کی گردش کی طرح گردش کرتا ہے۔‘‘ [بخاری، الاعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ....: ۲۰۳۸ ] الغرض ! شیطان کے انسان کو چھو کر خبطی بنا دینے سے انکار قرآن و حدیث سے انکار ہے۔ البتہ مجھے آج تک کوئی ایسی حدیث یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا کوئی واقعہ نہیں ملا جس میں ذکر ہو کہ شیطان یا جن نے کسی آدمی کے جسم میں داخل ہو کر اس کی زبان پر گفتگو کی ہو، صرف مشاہدہ اس کی ناکافی دلیل ہے، کیونکہ ’’ اَلْجَنُوْنُ فُنُوْنٌ ‘‘ یعنی جنون کی بہت سی شکلیں ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم ! فَلَهٗ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ:یعنی سود کی حرمت کا حکم آنے کے بعد جو سود سے باز آ جائے وہ پہلے جو سود لے چکا ہے اس کا مطالبہ اس سے نہیں کیا جائے گا، البتہ معاملہ اس کا اللہ کے سپرد ہے وہ اس کے آئندہ طرزِ عمل، ندامت، توبہ کو دیکھ کر فیصلہ فرمائے گا۔ یاد رہے یہ اس وقت کی بات ہے جب سود کی حرمت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اب سود کی حرمت کو جانتے ہوئے کوئی شخص ساری عمر سود کھا کر آخر میں چھوڑ دے تو وہ مال اس کا نہیں ہو جائے گا بلکہ اسے حتی الامکان اس کے مالکوں کو لوٹانا ہو گا اور جو نہ لوٹا سکے اس پر توبہ اور استغفار کرنا ہو گا۔ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ:یہ سود خوروں کے لیے سخت وعید ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر، سود دینے والے پر، سود لکھنے والے پر اور سودی لین دین کے گواہوں پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘ [مسلم، المساقاۃ، باب لعن أکل الربا و موکلہ:۱۵۹۸ ] بعض نے ”وَ مَنْ عَادَ“ کے یہ معنی کیے ہیں کہ حرام قرار دیے جانے کے بعد بھی اگر کوئی بیع اور سود کو برابر قرار دے گا اور سود کو حلال سمجھ کر کھائے گا تو ایسا شخص چونکہ کافر ہے، اس لیے اسے ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار دیا ہے۔ ( شوکانی )