لَّوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَٰئِكَ عِندَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ
پھر یہ تہمت لگانے والے اس پر چار گواہ کیوں نہ لاسکے؟ پھر جب یہ گواہ نہیں [١٧] لاسکے تو اللہ کے ہاں یہی جھوٹے ہیں۔
لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ....: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان لگانے والوں کے متعلق فرمایا کہ وہ اس دعویٰ پر چار گواہ کیوں نہیں لائے، تو جب وہ اس کے گواہ نہیں لائے تو وہی اللہ کے ہاں کامل جھوٹے ہیں۔ ابن عاشور نے اس کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے : ’’مطلب یہ ہے کہ جو شخص دیکھے بغیر کوئی خبر دے اسے لازم ہے کہ وہ مشاہدہ کرنے والے کا حوالہ دے اور وہ مشاہدہ کرنے والے اتنی تعداد میں ہونے ضروری ہیں کہ اس قسم کے واقعہ میں اتنی تعداد سے سچ کا یقین حاصل ہو جائے۔ (یہ تعداد زنا کے لیے کم از کم چار ہے) اب ان لوگوں نے جو اُمّ المومنین پر تہمت باندھی تو ان میں سے کسی نے بھی نہ دیکھا اور نہ اتنی تعداد میں دیکھنے والے پیش کیے جس سے کسی پر زنا کا جرم ثابت ہوتا ہے، بلکہ محض خیال اور گمان سے تہمت لگا دی، اس لیے اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ )) [ بخاري، الأدب، باب: ﴿یأیھا الذین آمنوا اجتنبوا....﴾ : ۶۰۶۶ ] ’’(برے) گمان سے بچو، کیونکہ (برا) گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔‘‘ ’’ فَاُولٰٓىِٕكَ ‘‘ کی تاکید’’هُمْ‘‘کے ساتھ کرنے اور خبر ’’الْكٰذِبُوْنَ‘‘پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، جس سے مراد ان کے جھوٹا ہونے میں مبالغہ ہے۔ گویا وہ اتنے کامل جھوٹے ہیں کہ ان کے مقابلے میں کوئی اور جھوٹا ہے ہی نہیں۔ ’’اللہ کے ہاں جھوٹے‘‘ سے مقصود ان کے حقیقی جھوٹا ہونے کا بیان ہے، کیونکہ اللہ کا علم کبھی خلاف واقعہ نہیں ہو سکتا۔ رہا یہ مسئلہ کہ کوئی شخص اگر چار گواہ زنا کے ثبوت کے لیے پیش نہ کر سکے تو ممکن ہے وہ سچ ہی کہہ رہا ہو، مگر شرعی فیصلہ ظاہر کے مطابق ہو گا اور اسے جھوٹا قرار دے کر اس پر قذف کی حد نافذ کی جائے گی، تو اس آیت کا یہ مطلب نہیں (اگرچہ دوسرے دلائل سے یہ بات درست ہے)۔‘‘ [ التحریر والتنویر ]